قیادت کی تلاش

چین اور امریکہ کے درمیان عالمی قیادت حاصل کرنے کی دوڑ (جسے مقابلہ کہنا چاہئے) پوری طرح جاری ہے۔ اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور زیر بحث آ چکا ہے کہ کس طرح دو عالمی طاقتیں اثر و رسوخ کے لئے اپنی اپنی ٹیکنالوجی‘ خلائی دسترس‘ معیشت کی مضبوطی اور مختلف شعبوں میں ایک دوسرے پر سبقت کو اِس مقابلہ کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے تبصروں‘ تعلیمی جرائد‘ کتابوں اور عالمی کانفرنسوں میں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ امریکہ کو چین اور اس کے برعکس درپیش چیلنجوں سے کیسے نمٹنا چاہئے۔ صدر شی جن پنگ کے طرز حکمرانی‘ چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی معیشت کی سست روی پر مغربی تبصروں کو پڑھنا کبھی بھی مایوس کن نہیں تاہم اِس معلومات کے مرکز میں ایک زیادہ باریک سیاسی موضوعات چھپے ہوئے ہیں جس پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔ قیادت کا معیار‘ عالمی طاقت کی حرکیات اور جغرافیائی سیاسی رجحانات کے مستقبل کو سمجھنے کے لئے‘ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مضمر ہے کہ قیادت عالمی واقعات کو کس طرح تشکیل دے گی۔ اگر کسی کو چینی حکام‘ مشرق وسطیٰ کے سفارت کاروں‘ سری لنکا کے ماہرین تعلیم یا ملائشیا کے پالیسی سازوں سے بات کرنے کا موقع ملے تو اسے احساس ہوگا کہ چین کے بارے میں ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ خبروں اور ذرائع ابلاغ میں چینی غلبہ‘ مسابقت اور مشرق وسطیٰ کی کثیر الجہتی صورتحال وغیرہ جیسے دلچسپ مرکبات و الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اگرچہ چین کے بارے میں مغربی بحث چینی معیشت اور چین کی فوجی تعمیر پر حد سے زیادہ مرکوز ہے لیکن ایکس فیکٹر کہیں اور ہے۔ چین اور امریکہ کی قیادت کا معیار واحد اہم عنصر ہے جو اِن دونوں ممالک کی عظیم طاقت کو برقرار رکھنے کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے یا اِسے فروغ دے رہا ہے۔امریکی طاقت کا موجودہ قائم شدہ عالمی منظرنامہ اور نظام کی طاقت کا راز حکومتی اداروں میں ہے جنہوں نے تقریبا کئی دہائیوں سے بہترین کارکردگی اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ نیٹو اور کئی دیگر ایسی عالمی تنظیمیں ہیں جنہوں نے امریکی بالادستی اور اثر و رسوخ کو قائم اور منظم کر رکھا ہے اور امریکہ اِس اثرورسوخ کا مختلف محاذوں دفاع کرنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ثابت ہوا ہے۔ یہ ادارے ایک ایسی امریکی قیادت کے دماغ کی پیداوار تھے جو مستقبل کے منظرنامے کو اچھی طرح سمجھ سکتی تھی۔ ایک کے بعد ایک امریکی صدور نے عالمی سطح پر امریکہ کے لئے جگہ بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے قومی وسائل کا فراخدلانہ استعمال کیا اور امریکہ کے قومی مفاد کو ہر مفاد پر سبقت دی۔ یہی اِن صدور کا درحقیقت اصل کام ہوتا ہے لیکن کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکھنے میں آئی اور وقت کے ساتھ لوگ اور ادارے بدل گئے اور اسی طرح امریکہ میں قیادت کا معیار بھی بدلتا چلا گیا ہے۔ جمہوریت‘ قانون‘ ٹیکنالوجی‘ خارجہ پالیسی‘ ذرائع ابلاغ اور بہت کچھ امریکی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے کہ وہ ان کی رہنمائی‘ حوصلہ افزائی اور حفاظت کرے تاکہ انہیں پھلنے پھولنے اور اپنے مقاصد کے حصول میں مدد مل سکے۔ اس کے برعکس‘ بے خبر انفرادیت‘ جزویت پسندی اور پاپولزم اداروں کے تانے بانے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ناپسندیدہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایک زمانے میں امریکی ادارے برتری اور نفاست کی علامت تھے (مطلق الفاظ میں نہیں بلکہ اِسے عمومی بول چال سمجھا جائے)۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور عالمی رائے عامہ کو ’امریکی خواب‘ کا حصہ بننے کی جانب راغب کیا۔ مثال کے طور پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جدید سفارتکاری کا مطالعہ کریں اور امریکی صدور کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو برسوں پر محیط اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کردار کی سمجھ آ جائے گی جو صدر امریکہ کے تبدیل ہونے کے ساتھ اپنی ترجیحات تبدیل نہیں کرتا۔چین کی قیادت بھی یکساں پرعزم ہے تاہم چین اور امریکہ کی قیادت و حکومتی نظام ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ صدر شی کا طرز حکمرانی ایک تنظیم کے سی ای او کی طرح ہے جو فعال‘ طاقتور اور مو¿ثر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر تیمور شمائل۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)