کشمیر کا مستقبل؟

بھارت کی سپریم کورٹ نے حکمراں سیاسی جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)‘ کے کئے گئے حکومتی فیصلوں کو برقرار رکھا ہے‘ اِس عدالتی فیصلے سے بھارت حکومت کی کشمیری عوام کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے اور ان کی ثقافتی اور جغرافیائی شناخت ختم کرنے کی جاری کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے‘سپریم کورٹ کا فیصلہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں بلکہ بی جے پی کی سوچ کا عکاس ہے جس کا مقصد کشمیر کے سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دینا ہے ’بی جے پی‘ کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے سال دوہزاراٹھارہ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کمزور بنیادوں پر گورنر راج نافذ کیا گیا اور محبوبہ مفتی کی منتخب حکومت تحلیل کر دی گئی تھی‘سال دوہزاراُنیس میں متنازعہ پلوامہ خودکش حملے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھاجوابی کاروائی میں بھارت نے پاکستان کے بالاکوٹ پر حملہ کیا‘ مئی دوہزاراُنیس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی کامیابی حاصل کی ‘ مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کےلئے مودی نے کشمیر کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہر بات میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا ایک سیاسی چال کے طور پر اختیار کیا ‘ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے انکشاف کیا کہ پلوامہ دہشت گردانہ حملہ درحقیقت حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ہوا‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس افسوسناک واقعہ کو سیاسی فائدے کےلئے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اُس موقع پر مودی نے کہا تھا کہ حملے کی وجہ بننے والی سکیورٹی خامیوں کو اجاگر نہ کیا جائے مودی کے علاو¿ہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے کہا کہ اِس معاملے پر بیان بازی یا تجزیہ کاری نہیں ہونی چاہئے کشمیر میں بھارت کو جس مزاحمت کا سامنا ہے اُنکی وجہ سے بدقسمت واقعات پیدا ہو رہے ہیں اور انہیں مہارت کے ساتھ کشمیری مزاحمت کچلنے کےلئے سوچ سمجھ کر تخلیق کیا گیا ہے‘ دوسرے مرحلے میں مودی حکومت نے خطے کے انتخابی حلقوں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کی‘ جس میں ہندو اکثریتی علاقوں کی نمائندگی میں اضافہ دکھایا گیا اس اقدام کا مقصد جموں و کشمیر کی سیاست میں مسلمانوں کے سیاسی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا تھا‘ حد بندی کمیشن جسے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی کی تشکیل نو کی ذمہ داری سونپی گئی تھی‘ نے واضح طور پر ہندو اکثریتی جموں خطے کی حمایت کی کمیشن نے جموں کو چھ اور وادی کشمیر کو ایک نشست مختص دی مزید برآں بیرونی لوگوں کو کشمیر میں مستقل طور پر رہنے کی اجازت دینے سے مسلم اکثریت والی ریاست میں ’آباد کار نوآبادیاتی منصوبے‘ کی پیش رفت میں بھی تیزی آئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انتخابی حلقوں کی ازسرنو تشکیل اور آباد کار نوآبادیاتی منصوبے کے قیام سے دوہزارچوبیس میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں جموں و کشمیر اسمبلی کے مسلم ارکان کی تعداد میں زبردست کمی آئے گی‘ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہمارا ہے۔ مارچ دوہزاربیس میں بھارتی حکومت نے کہا کہ جموں و کشمیر اور لداخ بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں‘ جس کی تصدیق 1994ءمیں پیش کردہ پارلیمانی قرارداد میں بھی کی گئی تھی۔ بھارت ان علاقوں میں ہونے والی پیشرفت کی بھی نگرانی کرتی ہے جو بقول بھارت پاکستان کے ’غیر قانونی قبضے‘ میں ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع بارہا کہہ چکے ہیں کہ بھارت جلد ہی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پر کنٹرول حاصل کر لےگا‘ بھارت کو متعدد پیشکشوں کے باوجود بی جے پی حکومت پاکستان یا آزادی پسند کشمیری رہنماو¿ں کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع نہ ہو سکے کیونکہ بھارت خطے پر اپنا تسلط برقرار رکھتے ہوئے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا اعلان کسی صورت نہیں کرےگا(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ارشاد محمود۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)