تحقیق سے علم ہوا ہے کہ کسی بھی تبدیلی کا نقطہ آغاز ’عظیم نظریئے‘ سے ہوتا ہے ایسا نظریہ جس میں مستقبل کی منصوبہ بندی شامل ہو۔ کسی خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کےلئے عمل درآمد کی ضرورت اپنی جگہ ہوتی ہے اور جب نظریہ تخلیق کیا جاتا ہے تو اُس کی صلاحیت اور عملی اطلاق جیسے مراحل بھی پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو مستقبل کےلئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہے تو اِس کےلئے کتنے عرصے کی منصوبہ بندی کی جائے اِس سلسلے میں کئی ممالک کی موجود مثالوں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے قلیل و طویل مدتی منصوبہ بندیوں کے ذریعے اپنے ہاں غربت میں کمی لائی‘ ان معاشی کامیابیوں کا لب لباب یہ ہے کہ نجی شعبے کی دلچسپی کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا اِس لئے حکومت کو سرکاری اداروں کی سرپرستی کرتے ہوئے نجی شعبے کو بھی ترقی کے سفر میں ہمراہ کرنا ہوتا ہے بنیادی طور پر نجی شعبہ حکومت سے الگ نہیںبلکہ حکومت کے ساتھ مل کر سہولت کاری فراہم کر رہا ہوتا ہے‘جنوبی کوریا کی مثال لیجئے جہاں سرکاری ملکیت کے کاروباری ادارے نہیں تھے بلکہ نجی گروہ تھے جنہوں نے چالیس سال میں جنوبی کوریا کی فی کس جی ڈی پی کو 146ڈالر سے بڑھا کر 29ہزار 700 ڈالر تک پہنچا دیا‘ جنوبی کوریا کی معاشی تبدیلی میں اس کے رہنما جنرل پارک چنگ ہی نے ہیونڈائی کے بانی چونگ جو یونگ جیسے کاروباری افراد کی صلاحیتوں پر انحصار کیا اور اُنہیں مراعات دیں جس کے جواب میں نجی شعبے نے کوریائی جنگ کی تباہی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں حکومت کی مدد کی۔ اسی طرح سعودی عرب کی آرامکو نے اسٹینڈرڈ آئل آف کیلیفورنیا کی تکنیکی مہارت کے ساتھ نجی انٹرپرائز کے طور پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا‘ آرامکو کےلئے نجی شعبے کے ساتھ سرکاری شعبے کی مراعات بھی مختص کی گئیں آرامکو اب 161 ارب ڈالر کا سالانہ منافع دے رہی ہے۔ نجی شعبے کی زیر قیادت ترقی کی تیسری مثال ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی (وی او سی) ہے جسے ڈچ حکومت نے ایشیا میں مصالحے کی تجارت کی تلاش کےلئے لائسنس دیا تھا‘ وی او سی نجی
انتظامیہ اور شیئر ہولڈرز پر مبنی مشترکہ سٹاک کمپنی تھی۔ اس نے پچاس ہزار بحری جہاز چلائے اور نیدرلینڈز کو سمندر میں سفر کرنے والی سلطنت اور روٹرڈیم کو جہاز رانی کا مرکز بنا دیا اِس کے برعکس‘ پاکستان نے ریاست کی قیادت میں معاشی اور ترقیاتی ماڈل پر سختی سے عمل کیا‘ سرمایہ کاری خوفزدہ رہے‘ سرکاری ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) پر بیوروکریسی کی حکمرانی قائم ہے‘ اس طریقے کی وجہ سے خسارہ ہو رہا ہے اور پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کے ’ایس او ایز‘ جنوبی ایشیا میں بدترین ہیں اور ان کا مجموعی نقصان 458 ارب روپے سالانہ ہے‘ سال دوہزاراکیس میں ’ایس او اِی‘ قرضے یا گارنٹی ’جی ڈی پی‘ کا دس فیصد تھے‘ جس سے قومی وسائل پر ایک اہم بوجھ پڑا اور ہماری مالی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہوا۔ اسی طرح سوویت یونین کا معاشی ماڈل بھی ناکام ہوا اور وہ معاشی زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا‘پاکستان کے ویژن 2047ءکے تناظر میں سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کی طرح ’ایس آئی ایف سی ڈیولپمنٹ کمپنی (ایس آئی ایف سی ڈیوکو)‘ کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ معاشی تبدیلی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ملک اے جلال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)