استحکام کے ضامن؟

حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے معاشی منظرنامے میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں جو غیرمعمولی طور پر زیادہ عالمی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہیں۔ معروف عالمی کارپوریٹ سرمایہ کاروں نے اب پاکستان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے اور وہ پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے محفوظ سمجھ رہے ہیں جو کہ خوش آئند امر ہے۔ سعودی آرامکو نے گیس اینڈ آئل پاکستان میں چالیس فیصد حصص حاصل کئے ہیں‘ اتصالات نے ٹیلی نار پاکستان کو خریدنے میں چار سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ شنگھائی الیکٹرک نے تھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے بڑے منصوبے کے لئے دو ارب ڈالر دیئے ہیں۔ وافی انرجی شیل پاکستان کے اکثریتی حصص خرید چکی ہے۔ اِس کا کیا مطلب ہے؟ سب سے پہلے‘ یہ پیش رفت مثبت معاشی اشاریوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے‘ جن میں کرنٹ اکاو¿نٹ سرپلس‘ سٹاک مارکیٹ میں مضبوط کارکردگی‘ زیادہ محصولات اور کپاس کی زیادہ پیداوار شامل ہیں۔ پاکستان کا معاشی نقطہ نظر اُمید افزا ہے‘ جو بین الاقوامی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی اور بگ تھری کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں میں سے ایک فچ ریٹنگ انکارپوریٹڈ ہے جس کے مطابق ”انتخابات حالیہ اصلاحات کی پائیداری کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور اِس سے نیا سیاسی اتار چڑھاو¿ پیدا ہو سکتا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ”آنے والے انتخابات کے ارد گرد غیر یقینی صورتحال اور سیاسی اتار چڑھاو¿ کے امکانات‘ جو ساختی اصلاحات کا نفاذ متاثر کرسکتے ہیں اور معاشی چیلنجز بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ فچ کے مطابق ”ستمبر کے آخر میں‘ مالی سال 2024ءکی بقیہ تین سہ ماہیوں میں میچورٹی صرف سات ارب ڈالر سے زیادہ تھی“ اور ”فنڈنگ کے ہدف میں یورو بانڈ (سکوک) کے اجرا¿ میں ڈیڑھ ارب ڈالر اور کمرشل بینک قرضوں میں ساڑھے چار ارب ڈالر شامل تھے‘ جو ممکنہ طور پر چیلنجنگ ثابت ہوں گے۔“پاکستان استحکام کے ضامن کے بغیر نہیں چل سکتا۔ کوئی ادارہ یا کوئی خاص میکانزم جو استحکام یقینی بنانے اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کو قابل اعتماد‘ مستقل قوت کی ضرورت ہے جو سیاسی عدم استحکام‘ معاشی غیر یقینی صورتحال یا دونوں کا باعث بننے والے عوامل کو روکنے یا کم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان کسی استحکام کے ضامن‘ ایسی تنظیم یا ادارے کے بغیر نہیں چل سکتا جو تین چیزوں کے لئے کام کرتا ہو‘ ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کے اندر نظم و ضبط‘ سلامتی اور پیش گوئی کو برقرار رکھنا اہم ہے۔ یقینی طور پر‘ کچھ ادارے یا میکانزم ہیں جو ان عوامل کو روکنے یا حل کرنے کے لئے ضروری ہیں جو کسی نظام کے استحکام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان تین چیزوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پالیسی کا تسلسل‘ قابل اعتماد اور وقت کے ساتھ استحکام برقرار رکھنے کے لئے فعال اقدامات یکساں اہم ہیں۔ بدلتے ہوئے معاشی منظرنامے اور متوقع سیاسی تبدیلیوں کے درمیان اِستحکام کے ضامن کا مطالبہ زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے‘ جس میں چیلنجوں کا سامنا کرنے میں ملک کی لچک میں کردار ادا کرنے والے اداروں یا میکانزم کی اہم ضرورت پر زور دیا گیا ہے اب جبکہ پاکستان ’انتہائی آزمائشی دور‘ سے گزر رہا ہے۔ استحکام کے ایک ثابت قدم ضامن کی ضرورت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ آئیے نہ صرف موجودہ معاشی کارناموں کا جشن منائیں بلکہ ’استحکام کی پائیداری اور ضمانت‘ کی ضرورت کو بھی تسلیم کریں۔ ایک ایسا بندوبست جو کم سے کم تین چیزوں کو ممکن بنائے نظم و ضبط‘ سلامتی اور پیش گوئی کیونکہ یہ تینوں امور فی الوقت غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت ہے‘ جو ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)