عالمی امن : رجحانات اور کوششیں

اپریل دوہزاربائیس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے ’باو¿ فورم فار ایشیا‘ نامی سالانہ عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو (جی ایس آئی) کی تجویز پیش کی تھی۔ رواں سال فروری میں چین نے ’جی ایس آئی‘ کا باقاعدہ ’کانسیپٹ پیپر‘ جاری کیا‘ جس میں اِس فریم ورک کے تحت تعاون کی بیس ترجیحات کے ساتھ‘ تعاون کے پلیٹ فارمز اور میکانزم کے ئے تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں ’جی ایس آئی‘ ایک مکمل نظام ہے اور بین الاقوامی سلامتی کے میدان میں سفارتکاری کے بارے میں شی جن پنگ کی سوچ کو لاگو کرنے کا نتیجہ ہے اس میں بہتری بھی آتی ہے اور یہ جغرافیائی سیاسی سلامتی کے مغربی نظریے سے بھی آگے جاتا ہے اس اقدام کی بنیاد ’چھ وعدوں‘ پر رکھی گئی ہے‘ مشترکہ جامع تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے ویژن سے وابستہ رہنا‘ تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کےلئے پرعزم رہنا‘ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری کےلئے پرعزم رہنا‘ تمام ممالک کے جائز سلامتی کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے کےلئے پرعزم رہنا‘ مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کےلئے پرعزم رہنا اور روایتی اور غیر روایتی دونوں ڈومینز میں سلامتی کو برقرار رکھنے کےلئے پرعزم رہنا‘ یہ چھ وعدے آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور باہمی طور پر مضبوط ہیں‘ جن میں اعلیٰ سطح کے ڈیزائن کی میکرو سوچ کے ساتھ عملی مسائل کو حل کرنے کے طریقے اور راستے بھی شامل ہیں’جی ایس آئی‘ کے ذریعے چین اقوام متحدہ کے چارٹر کی روح کو برقرار رکھنے کےلئے بین الاقوامی برادری کےساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے اور بین الاقوامی منظرنامے میں آنےوالی گہری تبدیلیوں کو یک جہتی کے ذریعے ڈھالنے‘ روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی خطرات اور چیلنجز سے فائدہ اٹھانے کی ذہنیت کےساتھ نمٹنے اور سلامتی کےلئے نیا راستہ تخلیق کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جس میں محاذ آرائی پر بات چیت شامل ہو‘ گزشتہ ایک سال اور اس سے بھی زیادہ عرصے میں ’جی ایس آئی‘ کا بین الاقوامی برادری کی جانب سے بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا اور اِس کا گرمجوشی سے استقبال بھی کیا گیا ہے‘ اسے ایک سو سے زائد ممالک اور بین الاقوامی و علاقائی تنظیموں کی حمایت ملی ہے اور چین و دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے مابین باہمی اور کثیر الجہتی تبادلے اور تعاون کی دستاویزات کو ایک بڑی تعداد میں لکھا گیا ہے‘ ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے‘ چین فعال طور پر جی ایس آئی کو نافذ کرتا ہے‘ جو عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ سب سے پہلے‘ چین نے کثیر الجہتی سکیورٹی تعاون میں فعال طور پر حصہ لیا اور اسے فروغ دیا‘ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سب سے زیادہ امن دستے بھیجے اور اقوام متحدہ کے امن بجٹ میں دوسرا سب سے بڑا شراکت دار ملک ہے‘ چین روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول کے عالمی عمل کی بھی بھرپور حمایت کرتا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے آتشیں اسلحے کے پروٹوکول کی توثیق کر چکا ہے‘ چین افریقہ میں قیام امن کے اقدامات کی حمایت کرتا ہے اور یہ بین الاقوامی سطح پر انسانی ہمدردی کےلئے تعاون کی کوششوں کا حصہ ہے‘ جس سے خطے کے ممالک اور عالمی سطح پر خطرات کم ہوئے ہیں‘ دوسرا چین نے فعال طور پر ثالثی پر مبنی سفارتکاری کی ہے اور اہم (ہاٹ سپاٹ) مسائل کے سیاسی تصفیے کو فروغ دینے کےلئے اَنتھک کوششیں کی ہیں‘ یوکرین کے بحران کے سیاسی حل پر چین کا مو¿قف اور افغان مسئلے پر چین کا مو¿قف دونوں ہی امن سے جڑے ہیں۔ چین نے کامیابی کے ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت میں ثالثی کی ہے جس نے علاقائی ممالک کےلئے بات چیت اور مشاورت کے ذریعے اختلافات کے حل اور ہمسایہ ممالک کےساتھ تعلقات میں بہتری کی عمدہ مثالیں قائم کی ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازعے کے پھوٹ پڑنے کے بعد سے چین نے متعلقہ فریقوں کے ساتھ فعال طور پر رابطہ قائم کیا۔ خصوصی ایلچی کو علاقائی ممالک کا دورہ کرنے کے لئے بھیجا گیا اور فوری طور پر فلسطین کو انسانی امداد فراہم کی گئی۔ چین فلسطین صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے بھی کام کر رہا ہے تاکہ اِس مسئلے کا سیاسی تصفیہ کیا جا سکے۔ تیسرا‘ چین انسداد دہشت گردی‘ سائبر سکیورٹی‘ فوڈ سکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے غیر روایتی سکیورٹی شعبوں میں بھی فعال طور پر تعاون کر رہا ہے‘ انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے حوالے سے چین‘ پاکستان اور ایران کے درمیان سہ فریقی مشاورت کا پہلا اجلاس کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ اس نے جی ٹوئنٹی فریم ورک کے تحت گلوبل فوڈ سیکیورٹی پر بین الاقوامی تعاون کے اقدام کی تجویز پیش کی ہے‘ چین اور بحرالکاہل کے جزیرے کے ممالک کے مابین قدرتی آفات کی روک تھام اور تخفیف تعاون کا مرکز شروع کیا اور عالمی قوانین کے نفاذ‘ سیکیورٹی تربیتی نظام کے قیام کو فروغ دیا ہے۔ چین نے ڈیٹا سکیورٹی پر گلوبل انیشی ایٹو اور مصنوعی ذہانت گورننس کےلئے گلوبل انیشی ایٹو کا بھی آغاز کیا ہے‘ جو بین الاقوامی سکیورٹی گورننس کے عمل کی قیادت کر رہا ہے۔ چوتھا‘ چین نے بین الاقوامی سلامتی ڈائیلاگ اور تبادلے کے پلیٹ فارمز اور میکانزم کو بہتر بنانے میں فعال طور پر سہولت کاری فراہم کی ہے۔ چین نے افریقی ممالک کے ساتھ مل کر ’چائنا ہارن آف افریقہ فرسٹ پیس‘ گورننس اینڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس کا انعقاد کیا‘ دوسرے مڈل ایسٹ سکیورٹی فورم کا کامیابی سے انعقاد کیا‘ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘ ایشیا میں اعتماد سازی کے اقدامات پر کانفرنس اور مشرقی ایشیائی تعاون کے میکانزم جیسے کثیر الجہتی فریم ورک کے تحت مختلف فریقوں کے مابین سکیورٹی تبادلوں اور تعاون میں فعال طور پر سہولت کاری کی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یانگ ینڈونگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)