دعا ہے کہ سال دوہزارچوبیس میں جنوبی ایشیا میں باوقار و پائیدار امن قائم ہو۔ بائیس دسمبر کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ بائیس سالہ شوکت، پینتالیس سالہ سیف اور بتیس سالہ شبیر کو بھارتی افواج نے گھروں سے حراست میں لیا اور پھر اُسی دن چھوڑ بھی دیا گیا لیکن اہل خانہ کو اُن کی لاشیں ملیں! گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں کے دوران بھارتی قابض افواج کی جانب سے ہلاک کئے جانے والے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی تعداد میں مزید تین کشمیری کا اضافہ ہو گیا جس پر دنیا کو دکھ‘ صدمہ یا حیرت نہیں ہے۔ چھ ہفتوں سے بھی کم وقت میں پاکستان میں ایک نئی حکومت منتخب ہونے جا رہی ہے۔ امکان ہے کہ یہ حکومت بھی کشمیر کو یاد رکھے گی اور اِس مسئلے کے حل کے لئے بھارت کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی جائے گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہونے سے معیشت و تجارت سمیت دیگر معاملات پر بھی بات ہوگی۔ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک کے درمیان حالات کے معمول پر آنے (نارملائزیشن) کی توقعات اور اُمیدیں بڑھ گئی ہیں اور اگر دونوں ممالک کے درمیان امن و امان قائم ہوتا ہے تو اِس سے پورے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ٹھیک آٹھ سال قبل پچیس دسمبر دوہزارپندرہ کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دورہ لاہور پر آئے اور اِس سے دونوں ممالک میں امن دیکھنے کے خواہشمندوں میں خوش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ مذکورہ دورہ‘ اُس وقت‘ دونوں ممالک کی خودمختاری کا عکاس تھا۔ بھارت اس حقیقت کو سمجھ رہا تھا کہ ایک دائیں بازو کا ہندو بالادستی پسند رہنما‘ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کیا کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف تباہ کن جنگ جیت رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ واقعی ترقی کرنا شروع کر دے گی۔ دونوں ممالک کے لئے مثبت سمت کا تصور کرنا مشکل نہیں‘ جو کسی نہ کسی طرح سفارتی اور اقتصادی مذاکرات میں ایک دوسرے کے ساتھ مصروف تھے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ راستہ کیسا تھا لیکن ایک امید پرست کی حیثیت سے‘ میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں کہ چیزوں کے نتیجے بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر پاکستان ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے بچ گیا ہے۔ مزید برآں‘ اسے افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے مختلف قسم کے مو¿قف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جس کا آغاز اور اختتام ان ممالک کی طرف سے افغانستان میں اپنی ناکام کی صورت ڈیڑھ دہائی کی جنگ کا الزام پاکستان پر عائد کرنے سے نہیں ہوا۔ یقینی طور پر اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا‘ وہ بھی بالکل مختلف ہوتے۔ اکتوبر دوہزارسولہ کے نام نہاد ’ڈان لیکس‘ کے بعد بہت کچھ مختلف ہو سکتا ہے‘ جس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی شامل ہے جس نے جولائی دوہزارسترہ کے آخر میں اُس وقت کے وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دوہزارسترہ کے وسط سے آخر تک پاکستان کو امن کی راہوں میں مشکلات دیکھنا پڑیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ اس جگہ سے شروع یا ختم نہیں ہوتی جہاں ہم چاہتے ہیں بلکہ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے۔ ہم تاریخ کو کس طرح پڑھنے کا انتخاب کرتے ہیں یہ ہمارا استحقاق ہے لیکن حقائق ہماری ترجیحات کے مطابق تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ میں جتنا مضبوطی سے نارملائزیشن کا حامی ہوں‘ میرے لئے دوہزارسولہ کے بعد سے بھارت کے رہنماو¿ں کے واضح اور غیر ذمہ دارانہ مو¿قف کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ پاکستان نے اِس عرصے کے دوران حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی مالی اعانت اور حمایت کرنے کے لئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن دیگر اشارے بھی ہیں جو کہیں زیادہ واضح ہیں اور بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ سال دوہزارسولہ میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی تین سو چھبیس خلاف ورزیاں ہوئیں۔ دوہزارسترہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی تعداد تقریبا تین گنا بڑھ کر گیارہ سو چالیس ہو گئیں۔ اس کے بعد دوہزاراٹھارہ میں یہ دوگنا ہو کر 2350 اور پھر 2019ءمیں بڑھ کر 3351 ہو گئیں۔ یہ کشیدگی دیگر دہشت گرد واقعات سے الگ تھلگ نہیں۔سال دوہزارسولہ میں بڑی تبدیلی آئی۔ پہلے بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی علاقے میں ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی ہے۔ نارملائزیشن کے حامی امن پسندوں کو اُس وقت پاکستان کے اعلیٰ حکام اور بھارت کے تعلقات میں نارملائزیشن کا یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بھارت کے رویئے کو نظر انداز کریں۔ پاکستان نے باضابطہ طور پر وہی مو¿قف اختیار کیا جو نارملائزیشن کے حامیوں کی حوصلہ افزائی پر مبنی تھا۔ بعد ازاں دوہزارسولہ میں نارملائزیشن کے حامی وزیر اعظم نریندر مودی کی یوم آزادی کی تقریر سن کر خاموش ہو گئے جب انہوں نے کہا کہ ”میں خاص طور پر لال قلعہ کی فصیل سے کچھ لوگوں کا احترام اور شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مشرف زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
گزشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان کے عوام‘ گلگت کے لوگ‘ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ‘ جس طرح ان کے شہریوں نے دل سے میرا شکریہ ادا کیا ہے۔“ اس طرح کی اشتعال انگیزی بھارت کی ہندو بالادست نظریہ رکھنے والی بھارتی فوج کا دائرہ اختیار ہوا کرتی تھی لیکن انہیں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ سال دوہزاراٹھارہ میں جب پاکستان کو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی جانب سے گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تو بھارت نے کھلے عام اپنے ہمسایہ ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ اور اِس کی باضابطہ حمایت کی تھی۔ بھارت اُور امریکہ کے تعلقات پر نظر رکھنے والا کوئی بھی سنجیدہ مبصر یہ نہیں مانتا کہ بھارت ’ایف اے ٹی ایف‘ میں پس پردہ رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشیں نہ کی ہوں تاہم نہ تو امریکی اور نہ ہی فرانسیسی حکام کو زیادہ قائل کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ چھبیس نومبر دوہزارآٹھ کو ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تلوار پاکستان کے سر پر لٹکی ہوئی تھی۔سال دوہزاراُنیس میں بھارت نے پلوامہ واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جس میں چالیس سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے لیکن اس حملے کا کوئی بھی ثبوت کبھی بھی پیش نہیں کیا گیا۔ پانچ اگست دوہزاراُنیس کو بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر کی حیثیت تبدیل کردی۔ کئی دہائیوں سے یہ کشمیر کے لئے ہندو بالادستی کی خواہش کا حصہ رہا ہے۔ بھارت نے سارک کی بحالی کی تمام کوششوں کو بھی روک رکھا ہے۔ 9 مارچ دوہزاربائیس کے روز بھارت نے پاکستانی علاقے میں برہموس میزائل داغا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کی جانب سے بھارت کو مطمئن کرنے اور اسے تسلیم کرنے کے مزید طریقے تلاش کرنے کا معاملہ کمزور دکھائی دے رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو ممالک بھارت کو مزید مراعات دینا چاہتے ہیں وہ بھارت کے حقیقی ارادوں اور ثبوتوں کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ بھارت اپنے دفاع پر ہر سال پاکستان سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ کیا معاشی جنگ پھیلانے والے دشمن کے ساتھ امن قائم ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ سال دوہزارچوبیس میں جنوبی ایشیا میں باوقار و پائیدار امن قائم ہو۔