’سیاہ ہنس‘ کو اکثر دو وجوہات سے یاد کیا جاتا ہے۔ ستائیس دسمبر دوہزارسات میں منصوبہ بندی کے تحت ’سیاہ ہنس (بلیک سوان)‘ کو خاموش کیا گیا جس نے پاکستان کے سیاسی و معاشی مستقبل کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ جس دن ہم نے بے نظیر بھٹو کو کھویا‘ درحقیقت اس دن پاکستان ہی بدل گیا اور یہ تو ہونا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ پاکستان کی کہانی بھی بدل گئی۔ وہ رہنما جو اپنے وقت میں دیگر سے کئی دہائیاں آگے تھیں جب وہ ایک دہائی سے زائد عرصے کی جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئیں تو ان کے وجود کو برداشت نہیں کیا گیا۔ اس دن ایک ذاتی تاریخ اور عوامی تاریخ کے ٹکڑے آنسوو¿ں کی طرح بہہ گئے۔آج لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر محترمہ کو ہم سے نہ لیا جاتا تو آج ہم کہاں ہوتے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ شروع سے ہی حالات محترمہ کے حق میں ٹھیک نہیں تھے۔ کم از کم اس وقت جب وہ لیاقت باغ جلسے کیلئے نکلیں۔ ان دنوں انتخابی مہم اپنے اختتام کے قریب تھی۔ ہم اٹھارہ اکتوبر کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے صدمے سے ابھی نہیں نکل پائے تھے‘ جس میں درجنوں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا لیکن اس وقت کی پیپلزپارٹی کی کور ٹیم نے رابطہ عوام مہمات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو نے نہایت ہی بہادری سے کہا کہ میں ”میں جلاوطنی سے اس لئے واپس نہیں آئی کہ کمروں میں بیٹھ کر سیاست کروں۔“ انہیں
کسی کا خوف نہیں تھا کیونکہ ان کی جڑیں عوام میں تھیں اور وہ پاکستان کو ایک زیادہ بہتر ملک دیکھنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ اس دن جب روشن خیال بے نظیر بھٹو جلسے کے لئے جا رہی تھیں تو غیر ملکی پریس کی نظریں ان پر تھیں اور پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ کس طرح پاکستان میں سیاست اور حالات ایک تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ ہم لیاقت باغ کے دروازوں سے گزررہے تھے اس وقت کس طرح ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ بھاری بھرکم گاڑی بم کے دھماکے سے لرز گئی اور اچانک ہر طرف شیشے اور دھاتی ٹکڑے پھیل گئے۔ ہوا میں بارود کی بدبو تھی۔ اسی طرح کا منظر پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اٹھارہ اکتوبر کو بھی دیکھا جو کچھ طریقوں سے بدتر تھا۔ جب ہر طرف انسانی اعضا بکھرے دیکھے گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو پندرہ برس گزر گئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر پاکستان میں دسمبر کا مہینہ اور انتخابات کی تیاریاں ایک ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ماضی میں یہ دسمبر بہت بھاری ثابت ہوا تھا اور پیپلزپارٹی کو بے نظیر کی شہادت سے جو نقصان ہوا وہ آج تک پورا نہیں ہو سکا اور وہ دکھ آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ عالمی فورمز پر صرف پاکستان نہیں بلکہ پہلی مسلم خاتون سربراہ مملکت کے طور پر بھی یاد کی جاتی ہیں۔ جنہوں نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے لئے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ ان کی حکومت کو غیر منصفانہ طریقے سے ہٹایا گیا جبکہ انہیں پاکستان کے لئے اپنا ایجنڈا پورا کرنے کا موقع کبھی بھی نہیں ملا۔ ایسا نہیں ہے کہ بے نظیر شہید کے پاس جادو کی چھڑی تھی۔ غیر متزلزل جرا¿ت کے علاوہ ان کے پاس عوام کی خدمت کرنے کا موروثی جذبہ اور ایک منظم پارٹی تھی جسے وہ جمہوری انداز میں چلا رہی تھیں تاکہ ملک کا ادارہ جاتی نظام تبدیل کر کے غربت و افلاس کا خاتمہ کریں اور عوام کی زندگیوں میں بہتری لائیں۔ محترمہ بے نظیر نے ”انکم سپورٹ پروگرام“ شروع کیا جس کیخلاف ابتدائی طور پر بیوروکریسی کی جانب سے سخت مزاحمت کی گئی۔ مذکورہ پروگرام خواتین کی کفالت کرنے کیلئے تھا۔ محترمہ کے بعد آصف علی زرداری نے بھی اس پروگرام اور جذبے کو زندہ رکھا اور معاشرے کے کمزور اور غریب طبقات کی مدد کی۔ سماجی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے کی یہ وراثت آج تک بلاول بھٹو
زرداری جاری رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے سال دوہزاردو کے سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کی مدد کی اور بالخصوص خواتین کو تعمیر شدہ گھروں اور زمین کے مالکانہ حقوق دیئے۔ محترمہ بے نظیر کے بعد ضرورت سیاسی استحکام لانے کی تھی جس میں پیپلزپارٹی نے کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ پاکستان اب مزید الجھنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسے سیاسی تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے جن کی وجہ سے غیر ذمہ دار حکومتیں اقتدار میں رہیں۔ متعدد مواقع پر سخت قید اور نظربندی کا سامنا کرنے کے باوجود محترمہ نے کبھی بھی اپنے حامیوں کو مہروں کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ ان کی زندگی المناک سوگوں کی داستان تھی کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اذیت ناک عدالتی پھانسی دیکھی بلکہ انہوں نے اپنے دو بھائیوں کو بھی اپنے دور حکومت میں ناقابل بیان موت کا شکار ہوتے دیکھا۔ محترمہ کے المناک قتل کے بعد آصف علی زرداری نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بے نظیر پاکستان کو متحد کرنے والی قوت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی پاکستان کی تقسیم نہیں چاہتی بلکہ پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا منشور‘ مقصود اور مدعا ہے کہ ہمیشہ پاکستان قائم و دائم اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شیری رحمن۔ ترجمہ ابوالحسن امام)