تجزیہ کار اکثر اِس تاثر کو فروغ دیتے ہیں کہ عالمی نظام تعاون اور مصالحت سے ہٹ کر جبر اور محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ دنیا پر لبرل سوچ کا غلبہ ہو سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر دنیا عدم استحکام کا شکار ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ماہرین نے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کے موضوع پر روشنی ڈالی اور اس کی نمایاں خصوصیات کا جائزہ بھی لیا ماہرین کا اتفاق ہے کہ عالمی نظام تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس میں نئے کردار اور نئے اداکار غالب خصوصیات رکھتے ہیں اِس نئے نظام میں امریکہ‘ چین اور روس کے درمیان مسابقت بڑھتی جا رہی ہے‘ وہیں تکثیری طاقت کے مراکز جنہیں امیتاو آچاریہ اور ان کے ساتھی ’ملٹی پلیکسٹی‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں‘ عالمی نظام پر حاوی نظر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ”ملٹی پلیکس ورلڈ آرڈر نے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں چھوٹی اور درمیانی طاقتوں کے کردار کو بڑھا دیا ہے۔ اس طرح کی ریاستوں کی خارجہ پالیسی محدود‘ فوجی غلبہ‘ بائی پولر یا کثیر قطبی دنیا سے باہر زیادہ سیال عالمی نظام دکھائی دیتا ہے جو وسیع تر خارجہ پالیسی کے انتخاب اور اختیارات کا مجموعہ ہے۔ خارجہ پالیسی کے وسیع تر آپشنز کی وجہ سے ریاستوں کا رویہ قابل ذکر ہے۔ نظریات اور اقدار‘ سرد جنگ کے سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام‘ ریاستوں کے لئے کشش کے عوامل نہیں رہے۔ اس کی بجائے‘ معاشی اور سیاسی مفادات کے دائرے میں باہمی مفادات اور مبینہ اسٹریٹجک خطرات کسی ریاست کی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے کے لئے بنیادی عوامل بن گئے ہیں۔ یہ بات امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے معاملے میں زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے جنہوں نے اپنے نظریاتی اختلافات نظر انداز کرتے ہوئے سال دوہزاربائیس تک 758 ارب ڈالر سے زیادہ کی دوطرفہ تجارت کو جاری رکھنے کے لئے اپنے اپنے معاشی مفادات کو اوّلین ترجیح دی ہے۔ یہ بات یورپی ریاستوں کے چین اور جی سی سی کے ساتھ تعاون اور بھارت کے ساتھ چین کے تعاون کے معاملے میں بھی واضح دکھائی دیتی ہے۔ عرب اسرائیل نارملائزیشن کے لئے ابراہام معاہدہ بھی اسی طرح کے عالمی نظام کی ’نمایاں مثال‘ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کثیر الجہتی اور منی لیٹرلازم کے عوامل اور ایس سی او‘ برکس‘ آئی ایم ای سی وغیرہ جیسے پلیٹ فارموں پر ریاستوں کا رویہ غالب رہا ہے۔ ریاستوں نے اس نقطہ¿ نظر کا انتخاب کیا ہے کیونکہ یہ سب کے لئے ’منطقی جیت‘ جیسا حل پیش کرتا ہے۔ یہ چھوٹی طاقتوں کو عالمی معاملات میں حصہ لینے اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اِن ریاستوں کے درمیان تنازعات ختم ہو گئے ہیں اور دنیا نے مثالی ریاست اختیار کر لی ہے۔ باہمی مفادات سے قطع نظر جو بنیادی کشش کے عوامل اکثر ریاستوں کو تنازعات کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ بحر ہند و بحرالکاہل اور تائیوان میں امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی طرح چین کے بارے میں یورپی ریاستوں کی سوچی سمجھی سوچ اور چین و بھارت کے درمیان مخاصمانہ تعلقات اس کے عوامل ہیں۔ موجودہ عالمی نظام میں‘ ریاستیں زندہ رہتی ہیں کیونکہ کھینچنے والے عوامل کی سنگینی دباو¿ کے عوامل سے زیادہ ہوتی ہے۔ براہ راست اور کھلی محاذ آرائی کے فطری خطرات کا احساس بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستیں کشیدگی میں اضافے سے اپنے باہمی مفادات کو داو¿ پر نہیں لگاتیں‘ جس سے انہیں مخالف پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو جاری رکھنے کی اجازت ملتی ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا انتخاب ’ملٹی پلیکس ورلڈ آرڈر‘ سے الگ تھلگ نہیں۔ اب تک‘ پاکستان اپنے جغرافیائی تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں خود کو ایک متعلقہ اور اہم کھلاڑی سمجھتا ہے۔ اِس صورتحال میں پاکستان کے لئے ہر گزرتا دن خارجہ پالیسی کے آپشنز کے لئے پسپائی کا باعث بن رہا ہے۔ بین الاقوامی سیاسی ماحول کی وجہ سے نہیں بلکہ داخلی سیاسی عدم استحکام اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر ہو رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اسلام آباد کو بدلتے ہوئے عالمی نظام کا نوٹس لینا چاہئے اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان کو شرائط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس کے لئے امریکہ اور چین‘ جی سی سی اور افریقہ وغیرہ جیسے ممالک کی طرح حالات کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اس سے پاکستان کے لئے آپشنز میں تنوع آئے گا اور نئے مواقعوں کے ساتھ ساتھ تجارتی منافع بھی بڑھ جائے گا۔ پاکستان کو دیگر ممالک کی خارجہ پالیسی کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح ممالک اُبھرتے ہوئے ملٹی پلیکس ورلڈ آرڈر میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔