فضا میں دھند اور دھویں سے جنم لینے والی کثافت کو ’سموگ‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کئی شہر بشمول پشاور سموگ کی لپیٹ میں ہیں جبکہ سب سے خراب صورتحال لاہور اور کراچی کو درپیش ہے جہاں سموگ کا باعث بننے والے محرکات سیاسی الزام تراشی کے لئے بھی استعمال ہو رہے ہیں آئی کیو ائر کی سالانہ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ممالک کی فہرست میں مسلسل موجود ہے۔ اِسی رپورٹ کے مطابق لاہور دنیا بھر میں سب سے آلودہ شہر کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ہے۔ زہریلی سموگ ہر دن بڑھ رہی ہے‘ جس کے اسٹیک ہولڈرز ذمہ داری اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جب سموگ کی سطح کچھ کم ہوتی ہے تو سیاسی کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جاری‘ لاہور میں آلودگی کی سطح مسلسل ’خطرناک‘ حد تک برقرار ہے کیونکہ ہوا میں آلودگی کا باعث بننے والے چھوٹے ذرات کی حد انسانی صحت کے لئے خطرے کے نشان کو بھی عبور کر گئی ہے‘ یہ خطرے کی حد عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تجویز کردہ زیادہ سے زیادہ اوسط ہے جو لاہور میں یومیہ تیس گنا سے زیادہ ہے۔ المیہ ہے کہ شہروں کے رہنے والے آلودگی سے بھری فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ فضائی آلودگی کے مختلف عوامل ہیں۔ لاہور میں آلودگی باقاعدہ موسم کی شکل اختیار کر چکی ہے یعنی جس طرح گرمی سردی اور خزاں و بہار آتی ہے اِسی طرح فضائی آلودگی کا موسم بھی آتا ہے۔ فضائی آلودگی سردیوں کے موسم میں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ موٹر گاڑیاں‘ فیکٹریاں‘ تعمیرات اور کوئلے یا دیگر ایندھن سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر (پاور پلانٹس) ہیں۔ فضائی آلودگی پیدا ہونے اور پھیلنے کا ایک اور بڑا سبب فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے۔ ہر سال بھارت کے صوبہ پنجاب میں گندم کی فصل کی باقیات جسے ’پرالی‘ کہا جاتا ہے اُسے تلف کرنے کے لئے آگ لگا دی جاتی ہے۔ کسان کھیتوں کو آگ لگاتے ہیں تاکہ نئی فصل کاشت کرنے کے لئے کھیت کو کم وقت اور کم لاگت میں
جلد صاف کیا جا سکے۔ سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لاہور میں آلودگی کی سطح میں اڑتیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور اِس اضافے کی ذمہ دار پرالی جلانا ہے۔مسلسل دھندلے آسمان کے حوالے سے ایک اور تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے شہری علاقوں کے رہنے والوں کی عمریں اوسطاً سات سال کم ہو رہی ہیں لیکن صوبے اور مرکزی حکومت اِس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماری کے علاو¿ہ خارش کی بیماری بھی لاحق ہوتی ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آلودگی کو صرف ایک مقامی مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لئے زیادہ کوشش کی جائیں اور زیادہ مالی وسائل مختص کئے جائیں۔ حکومت کو بہرصورت یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کے کسی ایک بھی شہر کی ہوا صاف نہیں رہی اور جب ہوا ہی صاف نہ ہو تو وہاں کے رہنے والے کس طرح صحت مند رہ سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سارا دانیال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)