عوام دوست قیادت

عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کی مناسبت سے گڑھی خدا بخش میں منعقدہ پروقار تقریب میں ہر مکتبہ¿ فکر سے تعلق رکھنے والے شریک ہوئے‘ جو اِس بات کا ثبوت تھا کہ پیپلزپارٹی کا نظریہ اور سیاست کو وفاق پاکستان کی علامت سمجھا جاتا ہے‘اِس جماعت کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آئندہ عام انتخابات کے پیش نظر اِس سال محترمہ کی برسی کی تقریب ’سیاسی طاقت‘ کے اظہار کا ذریعہ (پاور شو) بھی بن گئی‘ جہاں محترمہ کے شریک حیات آصف علی زرداری‘ اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری سمیت اندرون اور بیرون ملک سے لوگ ان کی عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے جمع ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس موقع پر ’10 نکاتی انتخابی منشور‘ بھی پیش کیا گیا جس میں عوام دوست حکومت کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں ’جئے بھٹو‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ پارٹی ترانے شرکا کا لہو گرما رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے تین رنگوں کے جھنڈوں سے سجے استقبالیہ کیمپس میں مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے رنگ برنگے بینرز اِس آفاقی حقیقت کو اُجاگر کر رہے تھے کہ ’عوام دوست رہنما‘ کبھی نہیں مرتے۔ دو دہائیوں سے زائد کے اپنے سیاسی کیرئیر میں اگرچہ راقم الحروف نے متعدد سیاسی اجتماعات میں شرکت کی لیکن گڑھی بخش میں مختلف پس منظر رکھنے والے پارٹی کارکنوں کے درمیان کچھ معیاری وقت گزارنے کو میں حقیقی ’سیاسی اثاثہ‘ قرار دے سکتا ہوں۔ اِس موقع پر مختلف شخصیات کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ¿ خیال کا موقع ملا اور اس دوران میں نے ویدک علم نجوم کی اُن پیشگوئیوں کی وضاحت بھی کی ‘علم النجوم کے ماہرین نے پیش گوئی یہ بھی کی ہے کہ سال دوہزارچوبیس جو کہ ’برج اسد‘ کا سال ہے‘ پیپلزپارٹی کے لئے خوش قسمتی کی علامت کے طور پر سامنے آئے گا ‘ تاریخی اعتبار سے گڑھی خدا بخش صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کا گاو¿ں ہے جس کی بنیاد بھٹو خاندان کے آباو¿ اجداد نے رکھی اور اِس گاو¿ں کو خدا بخش بھٹو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے تاہم آج یہ بھٹو خاندان کی آخری آرامگاہ کے طور پر مشہور ہے جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو‘ اُن کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو‘ اُن کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو‘ اُن کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو‘ میر شاہنواز بھٹو اور خاندان کے دیگر افراد اِسی گاو¿ں میں دفن ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 1990ءکی دہائی میں اپنے دور حکومت کے دوران اِس مقام کو ’عظیم الشان مقبرے‘ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمارت کے ڈیزائن کو حتمی شکل دینے کے لئے مقابلہ منعقد کیا گیا تھا جبکہ تمام معاملات کی نگرانی محترمہ بینظیر بھٹو نے ذاتی طور پر کی تھی۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’ڈاٹر آف دی ایسٹ (دختر مشرق)‘ میں ذکر کیا ہے کہ وہ اور اُن کی بہن محترمہ صنم بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ بھٹو خاندان کے کسی بھی رکن کو مستقبل میں آخری آرام گاہ تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اکتوبر دوہزارسات میں جب محترمہ بینظیر کراچی تشریف لائیں اور اُنہیں دہشت گرد حملہ میں نشانہ بنانے کی کوشش کی تو محترمہ نے تمام نامعلوم شہیدوں کو بھٹو قرار دیتے ہوئے گڑھی خدا بخش قبرستان میں دفن کرنے کا انتظام کیا۔ یہ اقدام بھٹو خاندان کے حامیوں سے اُن کی عملی محبت کا اظہار تھا اور اِسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں ہوئے دہشت گرد حملے میں محترمہ دو ماہ بعد اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور مستقل طور پر خود بھی گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک ہو گئیں۔گڑھی خدا بخش میں بے نظیر شہید کی آخری آرام گاہ کا دورہ کرتے ہوئے میں نے ان کی روح کی سلامتی کے لئے دعا کی۔ محترمہ دلیر رہنما تھیں جنہوں نے قوم کی خاطر اپنی قیمتی جان کی قربانی پیش کی اور یہ سانحہ پاکستان کی قومی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ محترمہ کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن شہید رانی نے ہمیشہ آئین کے مطابق پارلیمانی سیاست کو فروغ دیا اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن گڑھی خدا بخش آباد ہے اور اُن کے مزار پر لوگوں کی بڑی تعداد میں اِس بات کا اظہار ہے کہ محترمہ بے نظیر شہید اب بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رمیشن کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)