سال دوہزاربیس میں کیمسٹری کا نوبل انعام دو خواتین ایمانوئل چارپینٹیئر اور جینیفر اے ڈوڈنا کو دیا گیا۔ ڈاکٹر چارپنٹیئر اور ڈاکٹر ڈوڈنا تاریخ کی چھٹی اور ساتویں خواتین بن گئیں جنہوں نے کیمیا میں نوبل انعام حاصل کیا۔ یہ دریافت بیکٹیریا کے دفاعی میکنزم کے بارے میں ان کی تحقیقات کا نتیجہ تھی اور اسے جراثیم‘ پودوں‘ جانوروں‘ یہاں تک کہ انسانوں میں جینز کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ مذکورہ تحقیق دنیا کی نو حیرت انگیز دریافتوں کا حصہ ہے جس نے بائیو ٹیکنالوجی کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے سائنس دان ناقص جینز میں ترمیم کرکے جینیاتی بیماریوں سے نمٹنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اب تک ایسا کرنے کےلئے ٹیکنالوجی دستیاب نہیں تھی۔ جامعہ کراچی کے پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ کے جمیل الرحمن سینٹر آف جینومکس ریسرچ میں حال ہی میں منعقدہ تربیتی ورکشاپ میں اس شعبے سے متعلق متعدد امکانات (ایپلی کیشنز) پر روشنی ڈالی گئی۔ نومبر دوہزارتیئس میں جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی نے برطانیہ میں ’سکل سیل انیمیا‘ اور ’بیٹا تھیلیسیمیا‘ کے علاج کے لئے کلینیکل منظوری حاصل کی۔ خون کی یہ سنگین خرابیاں جینیاتی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جو خون کے خلیات کی ساخت کو متاثر (مسخ) کرتی ہیں اور آکسیجن فراہم کرنے کی
صلاحیت محدود کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ چند ہفتوں بعد امریکہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی سکل سیل انیمیا کے لئے اس نئی جین تھراپی کی منظوری دی۔ مذکورہ شعبے میں ایک اور دلچسپ‘ متعلقہ موضوع مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور سی آر آئی ایس پی آر کا امتزاج ہے۔ آرکٹک ساحلوں سے لے کر ٹراپیکل جنگلات تک جینیاتی مواد سے متعلق اعداد و شمار کے انبار پڑے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے بیکٹیریا میں سیکڑوں ممکنہ سی آر آئی ایس پی آر اقسام دریافت کی ہیں جو انسانی جینوم میں ترمیم کے لئے مو¿ثر ہیں۔ سی آر آئی ایس پی آر جیسے میکنزم کچھ دیگر جانداروں بشمول پھپھوندی‘ الجی اور جانوروں میں فعال پائے گئے ہیں۔ ’فینزورز‘ کے نام سے مشہور یہ جین تھراپی کے افق کو مزید وسعت دے رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) صحت کی دیکھ بھال کی تشخیص میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال دائمی جوانی کی تلاش کے لئے بھی کیا جا رہا ہے۔ بڑھاپے کے عمل کو سست کرنے یا اسے پلٹنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ ایوٹوس لورینڈ یونیورسٹی کے دو سائنسدانوں ڈاکٹر ایڈم اسٹرم اور ڈاکٹر ٹیبور ویلائی نے یہ جاننے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ عمر کیا ہوتی ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار کو کیسے کم زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں کچھ حرکت پذیر حصے ہوتے ہیں جنہیں ٹرانسپوزایبل عناصر (ٹی ای) کہا جاتا ہے اور یہ عمر بڑھنے کے عمل میں اہم عنصر (کلیدی) کردار ادا کرتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کو برداشت کرنے اور پیداوار (غذائی مواد) میں اضافے جیسی مطلوبہ خصوصیات بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن ہو گئی ہیں۔ اگر بائیوٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے تو کیمیائی حشرہ کش ادویات پر انحصار کم ہو گا اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں تیار ہوں گی۔ توانائی کے شعبے میں جدت کے حصول کے لئے ’ٹیکنالوجیز‘ کا استعمال ہو رہا ہے جس سے نئی قسم کی بیٹریاں بنائی جا رہی ہیں جیسا کہ دنیا کو پائیدار اور ماحول دوست نقل و حمل کے وسائل کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جدید بیٹری ٹیکنالوجی کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ابھر رہی ہے۔ بیٹریاں برقی گاڑیوں (ای ویز) کو چلانے (طاقت دینے) میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اس شعبے میں جاری تحقیق اور جدت نقل و حمل کے مستقبل کے لئے نئے امکانات پیدا کر رہی
ہے۔ پاکستان کو تیزی سے ترقی پذیر شعبوں جیسا کہ تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے کرہ ارض پر طرز زندگی ماحول دوست ہو سکتی ہے۔ تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری کا مطلب انجینئرنگ کے ساتھ کاروباری جامعات کے قیام میں سرمایہ کاری شامل ہے اور اس طرح کی کاروباری یونیورسٹی کی کامیاب مثال ”پاک آسٹریا فاچوشول‘ ہے جو اپنی ذات میں مکمل انجینئرنگ یونیورسٹی اور تجارتی مصنوعات کی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی پارک بھی ہے۔ یہ منفرد ادارہ ہری پور ہزارہ میں راقم الحروف کے زیرنگرانی قائم کیا گیا۔ اس میں آسٹریا‘ جرمنی اور چین کی نو غیر ملکی انجینئرنگ یونیورسٹیاں مل کر تدریس اور تحقیق کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک جامعہ سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیال میں بھی قائم کی گئی ہے۔ بھارت پہلے ہی 23 ایسے ٹیکنالوجی پر منحصر تعلیمی و تحقیقی ادارے قائم کر چکا ہے جن کی وجہ سے اس کی معیشت پر مثبت تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پاکستان کے دیگر صوبوں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کو بھی ایسی ہائبرڈ انٹرپرینیورل انجینئرنگ یونیورسٹیاں قائم کرنی چاہئیں تاکہ پاکستان خطے کے ممالک اور دنیا کے مقابلے زراعت‘ صنعت اور دفاع کے شعبوں میں تکنیکی برتری حاصل کر سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ ابوالحسن امام)