زہریلی سانسیں

ماحولیاتی آلودگی بڑھنے اور پھیلنے کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں منعقدہ عالمی اجلاس (کوپ 28) میں پاکستان نے بھی شرکت کی۔ تین دسمبر (عالمی یومِ صحت) کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے میگا سٹی دبئی کی فضا میں سموگ (دھند اور دھوئیں کی آمیزش سے بننے والی) کی ایک تہ موجود تھی۔ یہ پاکستانی وفد کے لئے ایک جانا پہچانا منظر تھا کیونکہ پاکستان کے دو بڑے شہروں (کراچی اُور لاہور) کا ائر کوالٹی انڈیکس دنیا کے خراب ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ لاہور کی فضا کا حال تو انتہائی خراب ہے۔ عالمی ادارہ¿ صحت کے مطابق اگر ائر کوالٹی انڈیکس تین سو ہو تو یہ مضرِ صحت ہے جبکہ لاہور کے چند علاقوں میں یہ 490 ریکارڈ کی گئی ہے۔ لاہور اکثر بدترین آب و ہوا والے شہروں کی فہرست میں سرِ فہرست رہتا ہے جبکہ بھارت کے دو شہر (دہلی اور ڈھاکا) بھی اِس کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن صرف لاہور یا کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر کئی شہروں میں بھی ائر کوالٹی انڈیکس مثالی نہیں ہے۔ المیہ ہے کہ آج کا انسان ’زہریلی ہوا‘ میں سانس لے رہا ہے‘ جو اِسے انتہائی خاموشی سے آہستہ آہستہ اور یقینی طور پر موت کے منہ میں لے جارہی ہیں۔ عالمی ادارہ¿ صحت کے مطابق ماحول دشمن ایندھن (فوسلز فیول) جلانے سے جو دھواں خارج ہوتا ہے اُس دھویں میں سانس لینے کی وجہ سے ہرسال قریب چالیس لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ دو عشاریہ پانچ میکرومیٹرز قطر کے ذرات (جنہیں پی ایم 2.5 بھی کہتے ہیں) جب ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں تو سانس کی نالی میں موجود سیلیا کو متاثر کرتے ہیں جن کا کام پھیپھڑوں میں نقصان دہ مواد کو داخل ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ خون کی رگوں میں شامل ہوکر دل کے امراض‘ سرطان اور دیگر پیچیدہ امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر موسمِ سرما میں گرم ہوائیں نہیں اٹھتیں جس کی وجہ سے یہ ذرات زمین کے قریب ہی فضا میں موجود رہتے ہیں۔ ماہرین امراضِ اطفال نے ماضی میں سموگ کی صورتحال کے تناظر میں خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان کے لوگوں کی اوسط عمر میں پانچ سال سے زائد کی کمی کا خدشہ ہے اور اِس کی وجہ سے بچوں اور بالخصوص حاملہ خواتین کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کم عمر کے لوگ دمے کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں جبکہ جس عمر میں دل کے امراض اور کینسر کے خدشات سنگین ہوتے ہیں‘ اس عمر میں بھی کمی واقع ہوگی۔موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کے خلاف کس قسم کے ردِعمل کا اظہار کرنا چاہئے؟ گزشتہ ماہ لاہور میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے متحدہ عرب امارات سے حاصل کی گئی کلاو¿ڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی سے پہلی بار مصنوعی بارش کی گئی لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ صرف طویل وقت کی موسلادھار بارش ہی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ چھوٹے علاقوں میں صرف چند منٹ کی بونداباندی سے شاید چند ذرات یا سلفیٹ کے ذرات زمین پر بیٹھ جائیں لیکن نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے 80 سال پرانی ٹیکنالوجی پر رقم خرچ کرنے کے باوجود شہر کے متعدد مقامات پر انڈر پاسز‘ فلائی اوورز اور نجی ہاو¿سنگ سوسائٹیز کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ یہ تو درست ہے کہ پاکستان میں کاربن کا اخراج اس قدر نہیں ہوتا جتنا کہ پاکستان کو اِس کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن سموگ کے مسائل کا شہری منصوبہ بندی اور عوامی پالیسی سے گہرا تعلق ہے۔ کسی نہ کسی وقت ہمارے فیصلہ سازوں اور عوام کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ شہروں کی فضاو¿ں کو آلودہ کیا جا رہا ہے اور یہ فضائی آلودگی ہمیں موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔پچیس سال قبل (اُنیس سو اٹھانوے) میں چین کے شہر بیجنگ کو بھی فضائی آلودگی کا سامنا تھا۔ چین کی حکومت نے فضائی آلودگی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اُور پہلے مرحلے میں کوئلے کا استعمال ترک کر دیا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں دھواں اگلنے والی موٹرگاڑیاں بند کی گئیں۔ اِن اقدامات کی بدولت بیجنگ میں فضائی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملی جس سے سبق ملا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق قوانین و قواعد کا سختی سے نفاذ کئے بغیر فضائی آلودگی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر حسیب آصف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)