فضائی آلودگی : عمومی شعور

چھینک کا علم لائق توجہ ہے‘ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ چھینکنے سے کیا ہوتا ہے؟ چھینک دھول کے خلاف جانداروں کے جسم کا قدرتی ردعمل ہے جس کی وجہ سے دھول کے ذرات جسم سے باہر دھکیل دیئے جاتے ہیں‘ اِس کےلئے ناک کے اندر بال ’فلٹر‘ کا کام کرتے ہیں اور ناپسندیدہ نقصان دہ ذرات کو خارج کرتے رہتے ہیں بدقسمتی سے نئی قسم کی فضائی آلودگی اِس قدر باریک ذرات پر مشتمل ہے کہ انسانی جسم کا مدافعاتی نظام اِسے پہچان نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ یہ آلودہ ذرات ہمارے جسم میں داخل ہو کر نہ صرف سانس کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں بلکہ اِن کی وجہ سے برین اسٹروک جیسی صحت کی انتہائی خطرناک صورتحال بھی جنم لیتی ہے گزشتہ چند برس میں لاہور کی آلودہ ہوا نے فیصلہ سازوں کو اپنی جانب مبذول کیا ہے‘ملک بھر میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ شہری آبادیوں میں ہوا کا معیار کس طرح بہتر بنایا جائے اور فضائی آلودگی کے اسباب و محرکات پر توجہ توجہ مبذول کی جائے۔ اِس سلسلے میں شہری علاقوں میں نصب کردہ آئی ائر کوالٹی مانیٹرز (میٹرز) نے ڈیٹا فراہم کرنا شروع کر رکھا ہے تاہم یہ مسئلے کا حل نہیں۔ اِن مانیٹرز کے اعداد و شمار عوامی معلومات کا ذریعہ تو بن گئے لیکن حکومت کی جانب سے فضائی آلودگی کے دستیاب اعداد و شمار سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا ہے۔پہلا ائر کوالٹی مانیٹر 1955ءمیں امریکہ کے شہر ’لاس اینجلس‘ میں نصب کیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ فضائی آلودگی کس حد تک ہے اِس بات کا سراغ لگایا جاسکے۔ اِس کوشش سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر صنعتوں کو بند کر دیا جاتا تھا۔ بعد میں‘ یو ایس ای پی اے نے امریکہ بھر میں ہوا کے معیار کی پیمائش کا نظام (ائر کوالٹی انڈیکس) جاری کیا اور امریکہ کی دیکھا دیکھی چین اور کنیڈا نے بھی اِسی اقدام کی پیروی کی تاکہ عوام کو مضر ماحول میں سانس لینے سے بچایا جا سکے۔ ذہن نشین رہے کہ قدرتی ہوا کی ساخت میں 72فیصد نائٹروجن{‘ 21 فیصد آکسیجن‘ 2 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسیں ہوتی ہیں لیکن جب صنعتوں اور گاڑیوں سے دھواں اُٹھتا ہے تو ہوا آہستہ آہستہ آلودہ ہونے لگتی ہے۔ فضائی آلودگی کو جانچنے کا پیمانہ (انڈیکس) ایک پیمائش کا نظام ہے جو ہر گھنٹے کی بنیاد پر اعدادوشمار فراہم کرتی ہے اور مخصوص آلودگی کی نشاندہی بھی کر دیتی ہے۔ ہوا کے معیار کو عام آدمی کی سمجھ کے مطابق ڈھالنے کے لئے اِس کی جانچ رنگوں (کلر کوڈڈ کیٹیگری سسٹم) سے کی جاتی ہے۔ کاربن مونو آکسائیڈ‘ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسی گیسوں کے مضر اثرات سب کو معلوم ہیں لیکن اِن کے علاو¿ہ ہوا میں بہت ہی باریک (مائیکرو لیول ایروسول) اور ٹھوس ذرات کی موجودگی بھی ہوتی ہے جس کی نشاندہی کرنے کےلئے نئی قسم کے آلات اور درجہ (کیٹگری) متعارف کرائی گئی ہے اور اِس درجے میں وہ آلودگیاں شامل ہیں جو انسانی جسم کے قدرتی مدافعاتی نظام (فلٹرز) سے بآسانی گزر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 سائز کے ذرات بالترتیب ڈھائی مائیکرو میٹر اور دس مائیکرو میٹر سائز کے ہوتے ہیں‘ جو ناک کے اندر موجود بالوں کی رکاوٹ سے قریب پانچ سے بیس گنا تک چھوٹے ہوتے ہیں۔ پی ایم 2.5 ذرات ہوا میں غیر جلے ہوئے ایندھن کی باقیات ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر گاڑیوں سے خارج ہونےوالا دھواں خراب ایندھن کی وجہ سے فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے جو دھول مٹی کے ساتھ مل کر زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر صوفیہ حسنین۔ ترجمہ ابوالحسن امام)


 جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ قدرتی فلٹرز (ناک کے بال اور تھوک) اِن ذرات کے گزرنے کو نہیں روکتے۔ ابتدائی طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ذرات سانس کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں لیکن حالیہ تحقیق نے ان ذرات کو فالج اور یہاں تک کہ تھکاوٹ جیسے روزمرہ کے تجربات سے بھی جوڑ دیا ہے۔ہوا کے معیار کا مسئلہ دنیا بھر میں خاص طور پر گلوبل ساو¿تھ کے ممالک کا ”بڑا شہری مسئلہ“ ہے کیونکہ شہری علاقوں میں گاڑیوں اور آس پاس کے علاقوں میں صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں‘ صنعتی فضلہ‘ کچرا جلانے اور تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے فضائی آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ ائر کوالٹی مانیٹرز اپنی جگہ آگاہی پیدا کر رہے ہیں اور فیصلہ سازوں سے خاطرخواہ عملی کاروائیوں کا مطالبہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ پی ایم 2.5 اور پی ایم 10مانیٹرز کو وسیع پیمانے پر ’کمپلائنس مانیٹرز‘ اور ’کم لاگت سنسرز‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق قیمت کا ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے لیکن فطری طور پر یہ ہوا کے معیار کے آلودگی کی پیمائش کرنے والی ٹیکنالوجیز میں فرق ہے۔ تعمیل مانیٹر بیٹا ایٹینیوشن مانیٹرنگ (بی اے ایم) ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں جہاں ہوا کو سائیکلنگ ربن کے ذریعے اندر جانے دیا جاتا ہے اور فلٹر کے ذریعے گزارا جاتا ہے۔ اِس میں بیٹا شعاعوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک فلٹر کے ذریعے گزرتی ہیں اور فلٹر کے دوسری طرف موجود آلودگی کو شناخت کر لیتی ہیں۔ ’بیٹا‘ نامی شعاعیں اِس ’تخفیف فلٹر‘ پر جمع ہونے والی کمیت (آلودگی) کا تعین کرتی ہیں۔ یہ آلات قیمت کے لحاظ سے مہنگے ہوتے ہیں اور اِن کی باقاعدگی سے دیکھ بھال اور کیلیبریشن کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے اِس قسم کے آلات صرف حکومتی ادارے یا تحقیق کرنےوالے ادارے ہی نصب کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے مقبول مانیٹرز کم لاگت کے ہوتے ہیں جنہیں سنسر (ایل سی ایس) کہا جاتا ہے یہ سائز میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور روشنی کی مدد سے فضائی آلودگی کا پتہ لگاتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ سے جڑے ہوتے ہیں اور کلاو¿ڈ سرورز کو آلودگی سے متعلق اعدادوشمار (ڈیٹا) فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اِس مانیٹر میں ہوا کو ایک چھوٹے سے سوراخ (دروازے) کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جس پر لیزر روشنی ڈالی جاتی ہے اور جب یہ روشنی پھیلتی ہے تو اِس کی مقدار پی ایم 2.5 کے تناسب سے معلوم ہو جاتی ہے۔ ایل سی ایس کے ذریعے پیمائش کئے جانے والے ارتکاز کی سطح ’بی اے ایم‘ کی طرح درست نہیں ہوتی کیونکہ ایل سی ایس ہوا میں نسبتاً نمی کو درست طریقے سے پیمائش نہیں کرتا۔ کسی شہر میں فضائی آلودگی جانچنے اور فضائی آلودگی کے معیار کی درست پیمائش کے لئے کم از کم 20 بی اے ایم مانیٹر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اِس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں‘ لاہور میں صرف ایک ایسا مانیٹر ’ای پی اے‘ نے گاڑی پر نصب کر رکھا ہے جو ہفتہ وار بنیاد پر اعدادوشمار جمع کرتا ہے۔ حکومت کے علاو¿ہ عام شہریوں اور مختلف تنظیموں نے بھی فضائی آلودگی جانچنے کےلئے آلات نصب کر رکھے ہیں ‘ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک سو کے قریب کم قیمت سنسرز نصب ہیں اور ان میں سے پچاس فیصد ہمہ وقت فعال رہتے ہیں۔ فضائی آلودگی ایک خاموش اور پراسرار قاتل ہے اِس خطرے سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ آلودگی پھیلانے والے معلوم محرکات کی اصلاح کی جائے بالخصوص شہری علاقوں میں ہوا کے معیار بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔