یادآوری : سرتاج عزیز

بہت ہی کم تعداد میں پاکستانیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات کی وجہ سے نام کمایا ہے اور یہ کار ہائے نمایاں سرانجام دینے والوں کی ذاتی خصوصیات کی وجہ سے تعریف کی جاتی ہے۔ سرتاج عزیز بھی ایسے ہی افراد کی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کے دوران بطور طالب علم رہنما اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہترین سرکاری ملازم (سول سرونٹ) بین الاقوامی کردار (موور اور شیکر)‘ دیانتداری اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بطور ماہر تعلیم شہرت حاصل کی۔پاکستان کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اُنہوں نے 1991ءکی معاشی اصلاحات کیں جن پر اگر مستقل مزاجی کے ساتھ بلا تعطل عمل درآمد کیا جاتا تو سال 2030ءتک پاکستان ایک اپر مڈل انکم والے ملک کا درجہ حاصل کر لیتا۔ سرتاج عزیز مضبوط اعصاب کے مالک تھے اُنہوں نے قومی سیاست اور حکمرانی پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں ‘ اگر اُن کے ویژن کو خاطرخواہ اہمیت دی جاتی تو نجی شعبے کی جانب سے اشیا و خدمات کی پیداوار‘ تقسیم‘ تجارت اور تبادلے کے ساتھ‘ بین الاقوامی تجارت میں فعال شرکت و براہ¿ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر زور دینے سے پاکستان کی معیشت نئی بلندیوں پر پہنچ سکتی تھی۔ وہ غربت میں کمی‘ دیہی و شہری آمدنی میں عدم مساوات کم کرنے‘ گھریلو صنعت کاری اور خدمات میں شراکت کے علاو¿ہ روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے قومی سطح پر غذائی خودکفالت ممکن بنانے کےلئے زرعی شعبے کی ترقی پر توجہ دی۔ انہوں نے نہ صرف تیل برآمد کرنےوالے ممالک کے نئے حاصل کردہ وسائل کو متحرک کیا بلکہ ترقی پذیر ممالک کےلئے بین الاقوامی زرعی ترقیاتی فنڈ (آئی ایف اے ڈی) کے قیام میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے پاکستان کےلئے زراعت کی ترقی کے بارے میں سب سے زیادہ قابل غور اور قابل عمل حکمت عملیاں تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگر پاکستان اُن کی تیار کردہ سفارشات اور ایکشن پلان پر سنجیدگی سے عمل کرتا (تو وہ حکمت عملیاں چار دہائیوں کے بعد آج بھی قابل عمل ہوتیں) اور زرعی شعبے کو یوں جمود کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہوتا بلکہ زرعی اجناس اور مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ‘ بین الاقوامی تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں انتہائی مثبت ہوتا‘ جس سے کرنٹ اکاو¿نٹ بیلنس کے منظم ارتقا میں مدد ملتی۔ ضرورت سے زیادہ بیرونی قرضوں کی ضرورت کم ہوتی اور قرضوں کے جال سے رہائی مل چکی ہوتی۔ بہت ہی کم لوگ سرتاج عزیز کو سال دوہزاراٹھارہ کی قومی آبی پالیسی کی کامیابی کا سہرا دیتے ہیں جو بین الصوبائی تعلقات میں متنازعہ مسئلہ ہے۔ ان کے ٹھنڈے مزاج‘ موضوع کے بارے میں گہری معلومات اور قائل کرنے کی خوفناک طاقت کی وجہ سے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ نے پالیسی دستاویز پر دستخط کئے۔ صوبوں کی جانب سے ان پر اعتماد کیا گیا اور یوں یہ قابل ذکر کارنامہ انجام کو پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ قومی اتفاق رائے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا ‘ پانی کی تقسیم میں نااہلی اور وسائل کی غلط تقسیم کے نتیجے میں ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔سرتاج عزیز سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور گلگت بلتستان کے انضمام اور بحالی جیسے تصورات کے بھی خالق ہیں۔ قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد سے پیدا ہونےوالے بہت سے مسائل کو اُن کی سفارشات کی روشنی میں آج بھی مناسب طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ سرتاج عزیز کی تنظیمی صلاحیتوں کو ان کی جماعت مسلم لیگ (نواز) نے اس وقت تسلیم کیا جب انہیں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ ذاتی طور پر‘ راقم الحروف ہمیشہ اُن کا شکر گزار رہے گا کہ انہوں نے پچاس سال کے طویل عرصے میں ہمیشہ مجھے مشورہ‘ مشاورت اور رہنمائی فراہم کی۔ میں ان سے پہلی بار اُس وقت ملا جب وہ چین پر تحقیق کر رہے تھے۔ اسکے بعد سے‘ ہم قریبی رابطے میں رہے اور انہوں نے بہت سے مواقع پر میری رہنمائی کی جو ایک ایک مہربان شخص کی نشانی تھی۔ راقم الحروف کو سرتاج صاحب کےساتھ براہ راست کام کرنےکا موقع ملا جب انہوں نے جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں زراعت کا قلمدان سنبھالا۔ انہوں نے ورلڈ بینک سے کہا کہ وہ مجھے نیشنل ایگریکلچر کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے ذمہ داریاں سونپیں۔ میں نے اُس مختصر مدت کے دوران دیہی علاقوں کے بارے میں ان سے بہت کچھ سیکھا جو بعدازاں میرے ایک تحقیقی مطالعے کی صورت محفوظ ہوا۔ راقم الحروف کی سرتاج عزیز سے دوسری ملاقات 1997ءمیں ہوئی جب انہوں نے مجھے پاکستان واپس آنے اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے پر راضی کیا۔ انہوں نے اسوقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ میرے ملاقات (انٹرویو) کا بھی اہتمام کیا‘ سال دوہزارچھ اور آٹھ میں راقم الحروف کو نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز این سی جی آر کا چیئرمین بنایا گیا اور سرتاج عزیز واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے میری تیارکردہ مسودہ رپورٹ کو پڑھا اور تفصیلی تبصرے اور تجاویز دیں۔سرتاج عزیز پاکستان کی نوجوان نسل کےلئے ہمیشہ رول ماڈل رہیں گے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی ہر دور میں تقلید ہونی چاہئے۔ وہ جن اعلیٰ خصوصیات کے حامل تھے اُن میں دیانت داری‘ قابلیت اور علم کا حامل ہونے جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ وہ اپنے کام کاج کو ہمیشہ بہت ہی جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ سرانجام دیتے اُور دوسروں کی رہنمائی کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے۔ ان کے بہت سے ساتھیوں نے پایا کہ وہ سیاست کے لئے موزوں نہیں تھے۔ اُن کی طبیعت میں انتہا درجے کی عاجزی تھی۔ پاکستان کے سیاسی و معاشی مسائل اُور عمومی و خصوصی منظر نامے کی اصلاح و بہتری کے لئے پاکستان کو آج بھی سرتاج عزیز کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عشرت حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)