نجکاری

سرکاری اداروں کا قیام اِس لئے عمل میں لایا جاتا ہے کہ یہ عوام کی خدمت کریں اور اُن کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں لیکن پاکستان میں سرکاری ادارے کہ جنہیں ’پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز)‘کہا جاتا ہے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور اِن کی کارکردگی سے عوام کی اکثریت مطمئن بھی نہیں ہے‘ کیا دنیا میں کوئی ایسا تجارتی ادارہ ہے جس کے اثاثے ڈیڑھ سو ارب روپے کے ہوں اور اُس کا خسارہ ساڑھے سات سو ارب روپے ہو؟ صرف پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کی یہی کہانی ہے پاکستان اسٹیل ملز بھی زیادہ مختلف نہیں جو ہر چھ ماہ میں 67 ارب روپے کا نقصان کر رہی ہے حکومت کےلئے خریداری کا شعبہ جسے ”کموڈٹی آپریشن“ کہا جاتا ہے ‘کی وجہ سے آٹھ سو ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ دو سو سرکاری ادارے (پی ایس ایز) کو ہر سال تقریباً اٹھارہ سو ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاو¿ہ حکومت ہر سال سبسڈی کی مد میں ایک ہزار ارب روپے فراہم کرتی ہے‘ حکومت اِن اداروں کو سالانہ گرانٹ بھی دیتی ہے‘یہ بات اب راز نہیں رہی کہ سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور یہ بوجھ اب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ قومی اداروں کا بوجھ کم کرنے کےلئے ’اسٹریٹجک مداخلت‘ کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حکومت کے پاس اِن سرکاری اداروں (پی ایس ایز) کو چلانے کی نہ تو خواہش ہے اور نہ ہی صلاحیت‘ اِن سرکاری اداروں کے خسارے کی وجہ سے ہر حکومت خود کو غیر مستحکم اور بے بس محسوس کرتی ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ سرکاری ادارے غیر فعال ہیں‘ سب جانتے ہیں کہ ’پی ایس ایز‘ ہمارے قومی وسائل کو ضائع کر رہے ہیں لیکن اِن کی اصلاح کرنے کےلئے خاطرخواہ سخت اقدامات نہیں کئے جاتے۔سرکاری اداروں کے خسارے میں مبینہ طورپرسیاست دان‘ افسرشاہی (بیوروکریٹس) اور مزدوروں کی تنظیمیں (یونین) کا عمل دخل (گٹھ جوڑ) ہے‘ بعض سیاست دان انتخابی مہمات کے دوران قوم سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے کارکنوں کو ’پی ایس ایز‘ میں غیر پیداواری ملازمتوں پر لگاتے ہیں جس سے اِن اداروں کا خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ بیوروکریٹس وسائل کی تقسیم پر اہم اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ مزدور تنظیمیں (یونینیں) ایسے ملازمین کی پشت پناہی کرتی ہیں جو ملازمت پر آتے ہی نہیں‘ یہ سب فریق ایک خاص قسم کا گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہیں‘ اس پیچیدہ اور وسیع تر گٹھ جوڑ نے انواع و اقسام کی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ غیر پیداواری ملازمتیں‘ وسائل کی غلط تقسیم‘ بدعنوانی اور کھربوں روپے کے دیگر معاشی نقصانات کی وجہ سے قومی معاشی ترقی کا عمل رک گیا ہے‘ سرکاری اداروں کی نااہلیوں کی وجہ سے تعلیم و صحت کی دیکھ بھال جیسی ضروری عوامی خدمات کے لئے دستیاب وسائل محدود ہو گئے ہیں‘ جس سے چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود متاثر ہو رہی ہے۔1980ءکی دہائی میں ویت نام کو ایک سنگین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا جس میں افراط زر کی شرح سات سو فیصد بڑھ گئی اور تجارتی خسارہ اور معاشی جمود بھی اِس میں شامل تھا۔ 1986ءمیں‘ ویت نام نے معاشی ترقی کا ماڈل متعارف کرایا‘ جو پانچ اہم ستونوں پر کھڑا تھا۔ نجکاری‘ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری‘ پی ایس ایز کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ‘ گھریلو کارٹیلز کا خاتمہ‘ اور آزاد تجارت کا فروغ۔ اِسی طرح چلی کے فوجی سربراہ آگسٹو پینوشیٹ نے یوٹیلیٹیز‘ کان کنی‘ بینکنگ اور ٹیلی مواصلات کی نجکاری کے ذریعہ معاشی ماڈل دیا۔ 1990ءکی دہائی میں‘ پولینڈ نے بڑے پیمانے پر نجکاری کی۔ شہریوں کو واو¿چر دیئے گئے جن کا تبادلہ سرکاری ملکیت کے اداروں میں حصص کے لئے کیا جاسکتا تھا نیز براہ راست نجکاری کی گئی‘اسٹریٹجک سرمایہ کاروں نے منتخب کاروباری اداروں میں حصص خریدے۔ پاکستان میں سرکاری اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ امکانات لامحدود ہیں لیکن سرکاری اداروں کی وجہ سے لاحق قومی خزانے کو بیماریوں کا علاج ہونا چاہئے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)