سال 2024ءمیں چین کا معاشی منظر نامہ قابل ذکر بحالی کے لئے تیار ہے۔ یہاں تک کہ جائیداد کی خریدوفروخت (پراپرٹی) کے شعبے میں مندی جیسے چیلنجوں کے باوجود بھی چین کی معاشی ترقی زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے۔ اس احیا میں اہم کردار خدمات کا شعبہ ادا کر رہا ہے‘ جو چین کی ترقی کا مرکزی نکتہ ہے۔ کورونا وبا کے بعد خدمات کے اِس شعبے میں نیا جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے اور یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ چین کی ترقی سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار اِس بیانیے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ قومی ادارہ¿ شماریات کے مطابق نومبر 2023ءتک خدمات کے شعبے میں اوسطاً ساڑھے اُنیس فیصد اضافہ ہوا ہے‘ اِس قابل ذکر رجحان کو مزید تقویت دیتے ہوئے اسی عرصے کے دوران ہائی ٹیک سروسز کے شعبے میں کی گئی سرمایہ کاری میں ساڑھے دس فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا جس سے فکسڈ اثاثوں کی سرمایہ کاری میں قریب تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری تازہ ترین ورلڈ اکنامک آو¿ٹ لک کے مطابق سال دوہزارچوبیس عالمی شرح نمو کم ہو کر 2.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہ سست روی مغربی ممالک میں گھریلو کھپت کم ہونے کی وجہ سے ہے۔ سال دوہزارتیئس میں اِس گھریلو کھپت میں کچھ اضافہ دیکھا گیا‘ جس کی وجہ بچت‘ روزگار کی بلند شرح اور وبائی امراض تھے تاہم ترقی کے یہ ستون ترقی یافتہ معیشتوں کی کمزوری کی بھی نشاندہی کر رہی ہیں تاہم ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اور ترقی پذیر معیشتیں (ای ایم ڈی ایز) بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس طرح کی تبدیلی‘ جو چین میں دیکھی جا رہی ہے‘ ایک تاریخی پس منظر بھی رکھتی ہے۔چین کے لئے یہ ارتقا اس کی ترقی کے سفر کا آغاز نہیں بلکہ جاری سفر کی روداد ہے۔ بیجنگ میں منعقد ہونے والی چین کی حالیہ مرکزی اقتصادی کانفرنس میں معاشی ترقی اُور مقامی سرمایہ کاری کے فروغ کے عزم کو اجاگر کیا گیا۔ مذکورہ کانفرنس میں‘ ایک واضح ہدف سامنے آیا جو پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ہے۔ چین میں جاری معاشی بحالی کے اِس سفر میں صارفین کا بڑھتا ہوا اعتماد اور مضبوط پالیسی قومی معاشی پالیسی بھی خاص اہمیت کی حامل ہے اور چین سال دوہزارچوبیس میں مسلسل اقتصادی توسیع کے لئے تیار ہے۔سال دوہزاربیس اور دوہزار بائیس کے درمیانی عرصے میں چین کو غیر متوقع بحران اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عدم مستحکم کا سامنا کرنا پڑا‘ جس سے اندرون ملک اخراجات (بیلنس شیٹس) میں خسارہ دیکھنا پڑا لیکن اس کے باوجود دو ہزار بائیس سے دوہزار تیئس کے درمیان چین کی معیشت میں بہتری آئی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ قومی بچت میں اضافہ ہے۔ نومبر دوہزارتیئس میں چین میں مقامی صارفین 4 کھرب یوآن سے زائد خریداری کی جو سال بہ سال کے تناسب سے دس فیصد اضافہ ہے۔ مجموعی طور پر‘ جنوری سے نومبر تک‘ خوردہ خریدوفروخت کے اعداد و شمار بھی متاثر رہے جو 48 کھرب یوآن ہیں اور یہ گزشتہ برس کے مقابلے میں سات اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے‘ جس سے معاشی مضبوطی اور بحالی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ چین میں جاری معاشی ترقی کا عمل اِس کی مالیاتی بنیادیں مضبوط کرنے کے ساتھ‘ معاشی منظر نامے میں بہتری کی نشاندہی بھی کر رہی ہیں‘ جس سے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری‘ جو چین کی معاشی ترقی کے بیانیے کا اہم عنصر ہے‘ نے دوہزارتیئس کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں چھ اعشاریہ تین فیصد کا قابل ستائش اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری میں سال بہ سال پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا جس سے پائیدار ترقیاتی رفتار کی نشاندہی ہوئی۔ اگرچہ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ساڑھے نو فیصد کی منفی شرح نمو کے ساتھ مندی کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ حالیہ معاشی پالیسی کے مرکزی نکتے یعنی معاشی بحالی کی سمت پیش قدمی ہے۔ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ چین کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر‘ جس نے سال دوہزاربائیس تیئس تک دو سال گراوٹ کا سامنا کیا ہے لیکن نئے سال (دوہزارچوبیس) میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا اور مجموعی طور پر یہ رجحانات مستقبل قریب میں چین کی ترقی و استحکام کا باعث ہوں گے۔ چین تحفظ ماحول کو خاطرخواہ اہمیت دے رہا ہے اور اِس نے گزشتہ کئی برس سے مسلسل صاف اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو قومی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔ سولر پینلز‘ ونڈ ٹربائنز‘ نیوکلیئر پاور جنریٹرز‘ بیٹریز اور گرین ای وہیکل مینوفیکچرنگ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ چین مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ابھی سے تیاری کر رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین کے ریاستی گرڈ کے ذریعے سالانہ بجلی کا چھیالیس فیصد سے زیادہ حصہ اب نئے انرجی فارموں اور پلانٹس سے حاصل ہو رہا ہے۔ چین کی وسیع الیکٹرک وہیکل (ای وی) اسمبلی لائنوں (موٹرگاڑی کی صنعت) کو رواں سال اندازاً 84 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) فروخت کی توقع ہے‘ جس سے چین کو الیکٹرک گاڑیاں بنانے میں عالمی سبقت حاصل ہو جائے گی۔ ابتدائی طور پر کم کاربن کے اخراج اور توانائی کے بہتر استعمال و کارکردگی کی وجہ سے پائیدار نقل و حمل کے ذرائع اور وسائل کو ترقی دی گئی جس کے بعد زرعی شعبہ ترجیح رہا اور اب چین ہاو¿سنگ مارکیٹ کی اصلاح کر رہا ہے تاکہ اِن شعبوں میں ہوئی معاشی سست روی کی تلافی کی جا سکے۔ چین کی معاشی ترقی سے متعلق لائحہ عمل جدت پر مبنی ہے جس میں صنعتی ترقی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین عالمی مینوفیکچرنگ مرکز سے کہیں زیادہ بڑھ کر دنیا کو تکنیکی انقلاب سے روشناس کروا رہا ہے اور نئے سال (دوہزارچوبیس) کے دوران بھی چین کی اِس معاشی ترقی سے دنیا بھی مستفید ہو گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام