موسمیاتی تبدیلی : انتخابی منشور

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں مشاورتی انداز میں اپنے منشور تیار کر رہی ہیں جبکہ زمینی حقائق متقاضی ہیں کہ عوام کو درپیش اُن مسائل کو بھی انتخابی منشور کا حصہ بنایا جائے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بے مثال اقدام اِس مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر جماعت نے اپنی اپنی منشور کمیٹیاں بنائی ہیں جو پائیدار اور لچکدار ترقیاتی ایجنڈا مرتب کرنے کے لئے مشاورت کر رہی ہیں۔ اُمید ہے کہ اِس غوروخوض کے بعد ایک ایسا ایجنڈا سامنے آئے گا جس میں تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہو گا اور اِس میں معاشرے کے تمام طبقات کی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہوگا۔ اکثر سیاسی جماعتیں کی سوچ جماعتی قائدین کے آبائی علاقوں تک محدود ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شہری علاقوں میں بنیادی سہولیات کا نظام حسب آبادی وسیع نہیں ہو سکا۔ سیاسی جماعتوں کی حالیہ مشاورت سے کچھ امید پیدا ہوئی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام شعبوں یعنی تعلیمی اداروں‘ طبی ماہرین‘ انجینئرز‘ قانونی پیشہ ور افراد‘ فنکاروں‘ مذہبی رہنماو¿ں‘ کاروباری افراد اور طالب علموں کی فعال شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ وہ جوش و خروش‘ ذہانت اور آئیڈیلزم کا مظاہرہ کریں اور قومی سطح پر بنیادی تبدیلی لانے میں تعمیری کردار ادا کریں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قیادت میں نسلی تبدیلی واقع ہوتی ہیں۔ نوجوان نسل ہماری امیدوں کا مرکز اور اُمیدوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اِسے سیاسی نظام کی حالت پر افسوس کرنے کی بجائے اپنے مستقبل کی ذمہ داری سنبھالنی چاہئے۔ یہ بات اِس لئے ضروری ہو جاتی ہے اور بالخصوص اہم ہے کیونکہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ آب و ہوا کے بحران (موسمیاتی تبدیلیوں) کے سنگین نتائج کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں کی فضا کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جا رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے تمام خطے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آب و ہوا کے بحران کو ترجیح کے طور پر تسلیم کریں اور اسے اپنے کثیر الجہتی ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کریں۔پاکستان ہر سال پہلے سے زیادہ تباہ کن آب و ہوا کے اثرات کا براہ راست سامنا کر رہا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ سال دوہزاربائیس میں‘ ہم نے تباہ کن سیلاب اور اس کی وجہ سے آنے والی تباہی کا سامنا کیا۔ سال دوہزارتیئس میں‘ پاکستان نے ہزاروں برس میں ممکنہ طور پر گرم ترین موسم گرما کا تجربہ کیا اور شدید موسم گرما کی وجہ سے اموات جیسے انتہائی واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ اِن تمام تر مشکل حالات میں عوام کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے منشور کی تیاری کے عمل میں صرف تماشائی نہیں بننا چاہئے بلکہ اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھانی چاہئے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین تک اپنے مطالبات پہنچانے چاہیئں۔ سیاست دانوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق معلومات میں اضافے اور ہائیدار و لچکدار قومی ترقی کے لئے مخصوص منصوبوں کو انتخابی منشوروں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ وقت ہے کہ قومی رہنماو¿ں‘ کی مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک رہنمائی کی جائے اور اُنہیں بتایا جائے کہ کس طرح کم آمدنی والے طبقات کو درپیش چیلنجوں کی شدت‘ یچیدگی اور سنگینی قومی حل طلب مسائل میں ترجیح ہونی چاہئے۔ موسمیاتی تغیرات سے وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی بحران کے فوری حل کا مطلب یہ ہے کہ مزید تاخیر نہ کی جائے اور حقیقت یہی ہے کہ قوم مزید تاخیر کی متحمل بھی نہیں ہے۔ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے حکومتی توجہ کے مستحق ہیں اور اُن کے مسائل پر خاطرخواہ توجہ کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے منشور سے بھی سیکھنا چاہئے اور سب سے بڑھ کر ضرورت اِس بات کی ہے کہ انتخابی منشور میں جو وعدے کئے جاتے ہیں اُنہیں ایفا کیا جائے۔ آئندہ عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے منشور محض رسمی نہیں ہونے چاہیئں بلکہ یہ قومی پیچیدہ مسائل کا عملی حل پر مبنی ہونے چاہیئں۔ عام آدمی کے نکتہ نظر سے انتخابی منشور پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے اور اِسے محض دستاویزات کے طور پر مرتب نہ کیا جائے بلکہ اِسے قومی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ’اسٹریٹجک حکمت عملی‘ جیسی ضرورت کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)