امریکہ: صدارتی انتخابات اور پاکستان

پاکستان کےلئے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں دلچسپی کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جن عالمی مسائل کے بارے میں پاکستان سفارتی سطح پر کوششیں کر رہا ہے امریکہ کی قیادت میں کون کون اُس کا حامی ہے۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن جو کہ اسرائیل کے حامی ہیں اور وہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ‘ نہ ہی غزہ میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پریشان ہیں تو اِس نکتہ نظر سے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ میں نوجوان ڈیموکریٹکس بھی کافی حد تک مایوس ہیں جبکہ بڑی عمر کے ووٹرز مہنگائی کی وجہ سے نالاں ہیں‘ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی یقینی ہے‘ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں تو اِس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات اور کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مدت کی اُن پرانی یادوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے جن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر بے بنیاد اور بنا ثبوت الزامات عائد کئے تھے! تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی مدد کی اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ کیا جیسا کہ افغانستان سے امریکی انخلا میں مدد کے لئے طالبان کے ساتھ بات چیت بھی پاکستان کی حمایت ہی سے ممکن ہوئی تھی۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی وضاحت ہمیشہ سکیورٹی کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن اب وقت بدل گیا ہے اور ممکنہ طورپر دوسری مدت کےلئے آنےوالی ٹرمپ انتظامیہ (موجود جو بائیڈن انتظامیہ کی طرح) دوطرفہ تعلقات کو ترجیح نہیں دے گی‘ پاکستان اور جنوبی ایشیائی خطے سے امریکہ کے مفادات یہ رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان ناقابل تلافی طور پر عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔ پاک بھارت کشیدگی تنازع کی شکل اختیار نہ کرے اور یہ کہ خطہ عالمی عسکریت پسندی کا گڑھ نہ بن جائے۔ تاثر یہی ہے کہ واشنگٹن بھی پاکستان کو مکمل طور پر چین کے اثرورسوخ روکنا چاہے گا۔ سال دوہزارچوبیس کا آغاز عالمی سطح پر عدم استحکام سے ہوا ہے۔ پاکستان اب بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس روس اور مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں عالمی منظرنامے میں زیادہ مشکلات پیدا نہیں کررہا۔ امریکہ نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب ’مشکلات پیدا کرنے والی‘ ریاستوں (جیسے افغانستان‘ ایران‘ شام) پر بات آئے تو انہیں محدود رکھنا ایک اچھا آپشن ہے۔ بھارت کے بڑھتے ہوئے امریکہ کے تعلقات اور عالمی اثر و رسوخ کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ علاقائی سلامتی کو سنبھالنے کے لئے نئی دہلی کے مفادات کو ترجیح دے گا (اور ایسے میں مسئلہ کشمیر اٹھانا مثبت نہیں ہوگا کیونکہ ٹرمپ خود یوکرین کے متعدد علاقوں پر روس کو قبضے کی اجازت دے کر جنگ کو ختم کرنا چاہیں گے) باقی صرف امریکہ کی چین کے ساتھ علاقائی اثر و رسوخ کی جنگ ہے۔ اسی تناظر میں اعزاز چوہدری نے حال ہی میں اِس جانب اشارہ کیا کہ امریکہ نے پہلے ہی چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کو اپنے اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر چن لیا ہے۔ اس کے علاو¿ہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کا چین کے ساتھ مقابلہ طاقت کے کھیل‘ عالمی اثر و رسوخ کے حوالے سے کم بلکہ معاشی غلبہ حاصل کرنے کے حوالے سے زیادہ ہوگا۔ سب سے پہلے امریکہ والی ذہنیت کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ چین کے اتحادیوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے بلکہ چینی درآمدات پر بھاری ٹیرف لگا کر چینی کمپنیوں کو پریشان کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔چین پر ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی دباو¿ ڈالنا پاکستان کے لئے اچھی خبر نہیں ہوگی۔ پاکستانی درآمدات پر لگایا جانے والا ٹیرف ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ امریکہ طویل عرصے سے پاکستانی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے۔ چین کے لئے مزید اقتصادی بے یقینی صورتحال کا مطلب یہ ہوگا کہ بیجنگ کی جانب سے قرضوں کی وصولی پر زیادہ زور دیا جائے اور اسی لئے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی صورت میں پاکستان پر مزید دباو¿ یقینی ہوگا۔ امکان یہ بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کی فوجی امداد میں کمی‘ روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی‘ نیٹو چھوڑنے کی دھمکی یا نیٹو اتحادیوں سے دفاعی اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کرکے امریکہ اور یورپ کشیدگی بڑھا دیں گے۔ یہ پیش رفت عالمی سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال کا باعث بنے گی جس کے نتیجے میں عالمی جنوب کے ممالک کے لئے چیلنجز میں اضافہ ہوگا۔تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل سے متعلق پالیسی امریکہ کی موجودہ پالیسی سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی بلکہ وہ اسرائیل کے لئے امریکی حمایت کو بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے خلیجی ریاستیں دباو¿ میں آئیں گی اور پاکستان کے لئے خلیجی اتحادیوں اور دیگر اہم مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو تقویت دینے کے کچھ مواقع پیدا ہوں گے۔ اِن تحفظات سے ہٹ کر‘ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت پاکستان پر مجموعی طور سے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ موسمیاتی تبدیلی کا انکار کرتے ہیں اور ان کی جانب سے لوس اینڈ ڈیمیج فنڈز کے لئے یا دیگر موسمیاتی مالیاتی اقدامات کی حمایت کا امکان نہیں۔ اگر اگلے امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلی کو عالمی ایجنڈے سے ہٹا دیا تو پاکستان جیسے موسمیاتی خطرے سے دوچار ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ہما یوسف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)