چھبیس فروری دوہزاراُنیس کی صبح تین بج کر تیس منٹ پر بھارتیہ فضائیہ یعنی انڈین ائر فورس (آئی اے ایف) کے ”میراج 2000“ نامی لڑاکا طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کیا اور پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر ’بالاکوٹ‘ کے ایک مقام پر فضائی حملے کئے۔ ستائیس فروری کی صبح پانچ بج کر پنتالیس منٹ پر پاک فضائیہ کے ”ایف 16“ نامی لڑاکا طیاروں نے جواباً بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں چکوٹھی اور میرپور سمیت پانچ مقامات کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا۔ اُسی صبح ساڑھے آٹھ بجے پاک فضائیہ کے طیاروں نے بالاکوٹ کے قریب بھارتی فضائیہ کے مگ اکیس بائیسن نامی لڑاکا طیاروں کے ساتھ فضائی لڑائی کی اور دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن ورتھمان پاکستانی فضائی دفاع کی فائرنگ کا نشانہ بننے کے بعد اپنے مگ اکیس بائیسن طیارے سے آزاد جموں و کشمیر (پاکستانی حدود) میں اُترے۔ اُنہیں پاکستانی افواج نے گرفتار کر لیا۔ صبح گیارہ بجے پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ امن کے اظہار کے طور پر ونگ کمانڈر ورتھمان کو واپس کرے گا۔ صبح دس بجے سے دوپہر بارہ بجے کے درمیان‘ جب بھارتی فضائیہ اپنے ہائی الرٹ لیول پر تھی‘ ایک سینئر افسر سمیت آئی اے ایف کے چھ اہلکاروں کو لے جانے والا بھارتی ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر غلطی سے زمین سے فضا میں مار کرنے
والے دوستانہ میزائل سے ٹکرا گیا۔ جہاز میں سوار تمام چھ اہلکار ہلاک ہو گئے۔ شام پانچ بجے ونگ کمانڈر ورتھمان کو واہگہ بارڈر کراسنگ پر بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔بھارت نے پاکستان کی جوابی کاروائی کو ’جنگی کاروائی‘ قرار دیا تاہم‘ اِس صورت حال میں جو چیز دلچسپی کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ اس کے بعد بھارتی فوجی قیادت کی جانب سے آپریشنل مفلوج کر دیئے۔ حالات کی سنگینی اور واقعات کی اِشتعال انگیز نوعیت کے باوجود بھارتی فوج کی جانب سے ردعمل میں نمایاں ہچکچاہٹ یا تاخیر دیکھنے میں آئی۔ یہ ظاہری ہچکچاہٹ آپریشنل طور پر مفلوج‘ فیصلہ سازی کی نشاندہی کرتی ہے۔ صورتحال کا یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ جب بھارت میں ’ہائی الرٹ‘ تھا تو اِس دوران بھارتی فوجی ڈھانچے کے اندر تیاریوں اور فیصلہ سازی کے بارے میں جو کچھ ہوا وہ بھارت کی فوجی صلاحیت پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ونگ کمانڈر ورتھمان کی وطن واپسی پاکستان کا فیصلہ تھا جسے پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی سختی سے پاسداری کی مثال قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ جنیوا کنونشن میں بیان کردہ اصولوں کی پاسداری کرنے والے پاکستان کے عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے طے شدہ عالمی اصولوں اور بین الاقوامی کنونشنز کی پاسداری کے اقدام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کے حوالے سے پاکستان کے ذمہ دارانہ اور اصولی نقطہ نظر کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ خالصتاً فوجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ستائیس فروری کے واقعات بھارتی فوج کے لئے اہم اور دوہرا دھچکا ثابت ہوئے۔ جس میں ذلت اور فوجی شکست دونوں شامل تھیں۔ بھارتی فوج‘ جو کہ افرادی تعداد اور اسلحے کے لحاظ سے پاکستان سے کم از کم تین گنا بڑی ہے‘ کا متناسب جواب دینے میں ناکامی بھارتی فوجی درجہ بندی میں آپریشنل مفلوج ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔سال دوہزارچوبیس : بھارت میں عام انتخابات اپریل اور مئی کے درمیان ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے کٹر حامی وزیر اعظم واجپائی کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری اور ایک سابق سفارت کار اجے بساریہ نے ’کٹل کی رات‘ کو بھارت کا مقابلہ کرنے کے میکانزم کے ایک انوکھے جزو کے طور پر متعارف کرایا۔ جسے ماضی میں ذلت اور فوجی شکست کے تجربات کے جواب میں تیار کیا گیا تھا۔ مودی کی انتخابی مہم کے دوران بننے والی فلم ’کٹل کی رات‘ میں اجے کی
’جبری سفارت کاری‘ اور ان کی ’آدھی رات کی کال‘ کے ساتھ ساتھ پاکستان پر داغے جانے والے نو خیالی میزائلوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ ناقابل تردید حقائق بدستور موجود ہیں: پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ ونگ کمانڈر ورتھمان کو زندہ گرفتار کیا گیا اور بعد میں اُسے بھارت واپس بھیج دیا گیا اور بھارتی فوج کو آپریشنل مفلوج حالت کا سامنا کرنا پڑا۔سال دوہزارچوبیس میں ذلت اور فوجی شکست سے نمٹنے کے لئے بھارت کے ردعمل میں اس سے نمٹنے کے طریقہ کار کو شامل کیا گیا ہے‘ جس میں افسانوی کہانیوں اور مسخ شدہ بیانیوں کی تشہیر کے ساتھ پراپیگنڈے میں مشغول ہونا‘ قوم پرستی کے جذبات کو بڑھاوا دینا‘ میڈیا اور تاثر کے انتظام کو منظم کرنا اور خاص طور پر انتخابی چکر کے دوران حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شامل ہے جیسے جیسے بھارت میں ایک اور انتخابی موسم سامنے آ رہا ہے۔ پاکستان مخالف بیانیہ دوبارہ اُبھر رہا ہے جو حقائق کے خلاف ہے اور بھارت کی قیادت غلط بیانی سے اپنا مخصوص سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حقائق حقائق ہیں اور حقائق تلخ ہیں جنہیں گمراہ کن بیانیوں سے خوش آہنگ نہیں کیا جا سکے۔ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا اور آج بھی رکھتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)