ٹیکنالوجی کی دوڑ

مربوط کاروبار (انٹرپرینیورشپ) اور جدت کے اِس جدید دور میں ہم مکمل طور پر ٹیک ٹولز‘ مشینوں اور آلات (گیجٹس) پر انحصار کر رہے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کو گرم کرنے سے لے کر جوہری توانائی تک‘ ہر شعبہ¿ زندگی میں ”ہائی ٹیک مشینری“ سے مدد لی جا رہی ہے۔ اِس منظرنامے میں سب سے زیادہ دلچسپ سوال جو کسی شخص کے ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہ ہے کہ سپر سمارٹ ٹیکنالوجی کے پیچھے کام کرنے والی ’اصل محرک (قوت)‘ کیا ہے؟ اِس سوال کا آسان جواب ”مائیکرو چپ یا سیمی کنڈکٹر“ ہے جو دھات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے مل کر بنتا ہے اور یہ خود میں غیرمعمولی طور پر جادوئی کمالات و اثرات رکھتے ہیں۔ اِن مائیکروچپس کی ساخت میں سلیکون نامی دھات کا استعمال ہوتا ہے اور آج کی ٹیکنالوجی میں کسی بھی چیز جو کہ تکنیکی سمارٹنیس رکھتی ہے درحقیقت وہ سلیکون کی پیداوار ہے۔ کچھ دیگر دھاتی عناصر بھی ہیں جو اِن چپس کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیںجیسا کہ فاسفورس تاہم اِن کا استعمال آٹے میں نمک کے مساوی ہے۔مائیکرو چپس نہ صرف ’تکنیکی جدت‘ رکھتے ہیں بلکہ یہ عالمی معیشت اور بین الاقوامی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ’ففتھ جنریشن وارفیئر‘ کے دور میں یہ مائیکرو سائز کی چپس کسی ریاست کی معاشی اور سائنسی طاقت کا تعین کرتی ہیں۔ اِن چپس کو تیار کرنے کی دوڑ میں مختلف ممالک کے مو¿قف کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے چپس بنانے‘ چپس کی فروخت اور چپس کو منتقل کرنے کا عمل یا مراحل چین‘ امریکہ‘ تائیوان‘ نیدرلینڈز اور جنوبی کوریا سمیت مختلف ممالک نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں اور چپ سازی پر اِن کی اجارہ داری ہے۔ ریاضیاتی اور تکنیکی پیچیدگیاں اپنی جگہ چپ سازی کے جغرافیائی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چپ سازی کی صنعت امریکہ میں 1960ءکی دہائی میں شروع ہوئی اور 1990ءکی دہائی میں اس کی سمت بدل گئی جب مورس چانگ نامی ایک انجینئر نے ’ریورس انجینئرنگ‘ کرتے ہوئے تائیوان میں ایف اے بی ایس (جسے مائیکروچپ مینوفیکچرنگ پلانٹس کے نام سے جانا جاتا ہے) نامی کمپنی شروع کی۔ تب امریکی کمپنیوں کے لئے امریکہ میں رہتے ہوئے ایف اے بی ایس بنانا مشکل تھا کیونکہ ان پلانٹس کو کام کرنے کے لئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے لہذا اُنہوں نے تائیوان کی مدد حاصل کی اور متعدد سائنسی ایجنسیوں کے ساتھ شراکت میں امریکہ نے ایف اے بی ایس کی مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کی۔ آج تائیوان کی چپ سازی میں اہم کردار ہے اور امریکہ اس ٹیکنالوجی کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے۔امریکہ چین کو بڑا مالیاتی‘ جغرافیائی سیاسی اور تکنیکی حریف سمجھتا ہے اور وہ چین سے نمٹنے کے لئے تائیوان کو اپنا معاشی اور تکنیکی شراکت دار بھی تسلیم کرتا ہے۔ اس بات کا اندازہ امریکہ اور تائیوان کے درمیان اعلیٰ سطحی وفود کے حالیہ تبادلوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ چپ سازی کی صنعت کا اہم کھلاڑی ہے اور فوجی استعمال سے لے کر گھریلو استعمال کے آلات تک کی ضروریات کے لئے چپ ٹیکنالوجی تیار کرتا ہے جسے دنیا بھر میں فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں یہ سلیکون ویلی چپ ٹیکنالوجی سے متعلق سافٹ وئر اور آلات بھی تیار کرتی ہے۔چپ سازی میں امریکہ کا براہ راست مقابلہ ابھرتی ہوئی اقتصادی سپر پاور چین سے ہے۔ بیجنگ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ تائیوان اور امریکہ سے چپ خریدتا ہے کیونکہ اس کی اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی ضروریات ہیں۔ چین دنیا کی دوسری بڑی فوج رکھتا ہے۔ فوجی طور پر زیادہ طاقت حاصل کرنے کے لئے چین امریکہ کی مختلف کمپنیوں سے بڑے پیمانے پر چپ ٹیکنالوجی حاصل کرتا ہے اور یوں بیجنگ کا چپ ٹیکنالوجی کی درآمد کے لئے امریکہ پر انحصار ہے۔چین نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران اپنی فوجی طاقت کو ترقی اور جدید بنایا ہے۔ یہ بات امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اور اِس خطرے یا صورتحال سے نمٹنے کے لئے موجودہ صدر جو بائیڈن نے چین کو چپس اور دیگر حساس فوجی سازوسامان کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ مزید برآں‘ امریکہ نے اوہائیو اور ایریزونا میں دو بڑے ایف اے بی ایس پلانٹس قائم کئے ہیں تاکہ تکنیکی طور پر وہ زیادہ آزاد اُور چپ سازی کی صنعت پر حاوی ہو سکے۔ دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے تکنیکی خسارہ پورا کرنے کے لئے مین لینڈ چین کے اندر چپ ٹیکنالوجی بنانے کا حکم دیا ہے تاہم امریکہ کو اب بھی چین پر برتری حاصل ہے اور امریکہ چپ سازی کی صنعتی دوڑ میں چین سے بہت آگے ہے۔ دنیا بھر کی تمام اقوام سائنسی طرز زندگی کو اپنانے اور اِس میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہی ہیں تاکہ وہ عصری ترقی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجوں سے بھی نمٹ سکیں اور اِس مقصد کے لئے اِنہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے متحد ہونا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے دنیا کو ایک بہتر و محفوظ جگہ بنایا جاسکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بلال مصطفیٰ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)