روس یوکرین تنازعہ تیسرے سال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ موسم سرما کی وجہ سے جنگ میں کچھ تعطل آیا ہے اور روس کی جانب سے کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ جمود کا شکار فرنٹ لائنز سال دوہزارچوبیس میں بھی ممکنہ تعطل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی یوکرین کی جانب سے جوابی حملوں کی تصدیق کر رہے ہیں تاہم روس اب بھی یوکرین کے تقریباً اٹھارہ فیصد علاقے پر اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے اور یوکرین کے تنازعے کے حل کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں جبکہ یہ خطہ موسمی سردی کے ساتھ تیزی سے منجمد تنازعہ بنتا جا رہا ہے اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے اثر و رسوخ میں سیاسی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ راستہ تنازعات والے علاقے سے دور سیاسی بحث و مباحثے پر منحصر ہے۔ بنیادی طور پر واشنگٹن‘ برسلز اور دیگر دارالحکومتوں میں روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ سال دوہزاربائیس میں مغرب نے جو مربوط جنگی محاذ کھولا تھا وہ سال دوہزارتیئس میں بھی برقرار ہے اور یہ تناو¿ اور تھکاوٹ کے واضح اشارے دکھا رہا ہے۔ امریکی دفاعی اِمداد کا پیکج اب بھی الجھا ہوا ہے جسے صدر بائیڈن نے واشنگٹن میں ’گھٹیا سیاست‘ قرار دیا تھا۔ دریں اثنا‘ یورپی یونین کی اقتصادی امداد بھی ہنگری کے متضاد مو¿قف پر غیر یقینی طور پر معطل ہے۔ مغربی دارالحکومتوں میں اِس اتار چڑھاو¿ نے پیوٹن کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ ان کے حالیہ عوامی مظاہرے اور جارحانہ اعلانات طویل تعلقات کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے اور اِن کے عدم فیصلے کی وجہ سے پیوٹن کو سیاسی طور پر فائدہ (تقویت) پہنچ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پیوٹن کا مقابلہ کر سکے؟ یقیناً یوکرین اور مالڈووا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا یورپی یونین کا اقدام اپنی جگہ اہم ہے اور یہ کیف کے لئے خاموش حمایت کی علامت ہے جس سے توقع ہے کہ یورپی یونین میں یوکرین کا مستقبل روس کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ واشنگٹن کی حکمت عملی کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ اگر ٹرمپ اور ری پبلکن انتظامیہ کا چارج سنبھال بھی لیں تب بھی امریکی پالیسی میں مکمل تبدیلی ناممکن دکھائی
دیتی ہے اگرچہ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے قیاس آرائیاں پیدا ہو رہی ہیں لیکن یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ان کے اشتعال انگیز بیانات کے باوجود‘ انہوں نے دوہزارسولہ میں نیٹو سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔ امریکہ کے دیرینہ ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کو تبدیل کرنے کے لئے صرف ایک رہنما کی من مانی سے زیادہ بڑھ کر اقدامات کی ضرورت ہوگی اور واشنگٹن میں‘ ایسی جامع پالیسی تبدیلی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔سال دوہزار چوبیس کے آخر تک یوکرین تنازعہ جاری رہے گا لیکن یہ بات اہم ہے کہ یہ تنازعہ غیرمعینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ اِس تنازعے نے یورپی براعظم پر جو جنگ مسلط کر رکھی ہے اس کے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ سال دوہزارتیئس تک‘ یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں واپس آ گئے ہیں جہاں عالمی معیشتیں جنگ کو ترجیح دے رہی ہیں۔ روس کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے‘ جو اب اس کے کل بجٹ کا تیس فیصد ہے اور یہ سال دوہزاراکیس کے بعد سے تین گنا بڑھا ہے۔ اِس بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یوکرین میں جنگ بیسویں صدی کے وسط سے یورپ کے تجربے سے کہیں زیادہ طویل اور پریشان کن اقدام ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)