پاکستان جیسے ممالک میں متوسط طبقے کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے جس کی کئی ایک وجوہات میں افراط زر سے بھری معیشت اور بے روزگاری سے لے کر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ شامل ہے جبکہ معاشی بحران جیسے محرکات بھی اِسی کا حصہ ہیں۔ کورونا وبائی مرض نے اس معاشی بحران کو جنم دینے میں جزوی طور پر بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند دیگر عوامل بھی ہیں جو متوسط طبقے کے بتدریج زوال کا سبب بنے ہیں۔ جن میں سرفہرست محرک یہ ہے کہ متوسط طبقے کیلئے آمدنی کے روائتی طریقوں کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے اور آئی ٹی کا استعمال بڑھ رہا ہے جبکہ ملک کی بڑی افرادی قوت ’آئی ٹی‘ سے نابلد ہے۔ اِس تکنیکی انقلاب کو سمجھا جائے تو مشکل آسان ہو سکتی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) آنے والے دنوں‘ مہینوں اور سالوں میں ڈیجیٹل انقلاب کو تقویت دے گی۔ کسی بھی معاشرے میں متوسط طبقہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس طبقے کے لوگ سیڑھیاں چڑھنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سالانہ چھ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے تک کماتے ہیں لیکن اب پاکستان میں متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے یا عملی طور پر غائب ہو رہا ہے کیونکہ اس گروپ کیلئے آمدنی کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور یہ اچھی نہیں بلکہ معاشی زوال میں اضافے کی علامت ہے۔ معاشی لحاظ سے متوسط طبقہ درحقیقت ’ترقی پسند
طبقہ‘ ہوتا ہے کیونکہ یہ معیشت کی ترقی کیلئے سخت محنت کرتا ہے اور محنت ہی کے ذریعے معاشی ترقی پر یقین رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ معاشی ترقی کیلئے زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقہ کیا ہے؟ اِس سلسلے میں پانچ اشاروں سے صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔ متوسط طبقے کو اِس کی تعلیم‘ پیشے‘ آمدنی‘ طرز زندگی اور رہائش سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقہ افراط زر‘ بے روزگاری اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور سکڑتی معیشت سے بری طرح متاثر ہے۔ اَندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا متحرک و متوسط طبقہ‘ جو روایتی طور پر پاکستانی معاشرے کا تقریباً پینتیس فیصد ہے‘ گزشتہ چار برس میں متعدد عوامل کی وجہ سے تقریباً ختم ہوگیا ہے‘ خاص طور پر کورونا وبا اور اِس کے بعد کے اثرات جو کہ افراط زر کی شکل میں سامنے آئے اور جنہوں نے معیشت کو سست کردیا ہے۔ ملک میں تقریباً صفر سرمایہ کاری کے ساتھ بے شمار دیگر وجوہات کی وجہ سے سرمایہ کاری کا ماحول بری طرح متاثر ہوا ہے‘ جس کے بہت سے عوامل ہیں بلند شرح سود‘ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ سلامتی کے مسائل اور سیاسی عدم استحکام اِس میں شامل ہیں۔ اِس بات پر یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ مشہور ’اکنامک ہٹ مین تھیوری‘ اِس صورتحال پر لاگو ہوتی ہے‘ جو پاکستان کے عوام برداشت کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تمام قرض پروگرام معیشت پر مسلسل بڑھتے ہوئے محصولات کا بوجھ ڈال رہے ہیں‘ جس سے معاشی افراط زر میں مسلسل اور متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ پاکستان کو پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور ان پر عائد سود کی ادائیگی کیلئے قرض دیئے جاتے ہیں۔ بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے بلوں کے ساتھ توانائی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے پاکستان کے عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ مجموعی طور پر افراط زر‘ خاص طور پر غذائی افراط زر جیسا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے اپنے عروج پر ہے اور یہ تقریبا چالیس سے پچاس فیصد جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے‘ جس سے متوسط آمدنی والے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ سکڑتی ہوئی معیشت کی وجہ سے آمدنی کے ذرائع دن بہ دن کم ہو رہے ہیں کیونکہ معاشی تبدیلی کی اس ہائی ٹیک دنیا میں روزگار تلاش ’نایاب چیز‘ بن گئی ہے۔ بے روزگاری ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔ کمپیوٹر یا انٹرنیٹ پر مبنی علم رکھنے والے لوگوں پر مشتمل شہری طبقے کا صرف ایک چھوٹا سا
طبقہ ای کامرس کی شکل میں آمدنی کے نئے ذرائع تک رسائی رکھتا ہے اور یہ ایک نیا رجحان ہے کیونکہ ہم پیسہ کمانے کیلئے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایپس اور پلیٹ فارمز کا استعمال کرنے والے افراد کے نئے چھوٹے اور متوسط طبقے کے طور پر ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور یہ واضح طور پرمعیشت کی بہتری کی امید ہیں۔ پالیسی سازوں میں شرح تبادلہ اور پالیسی ریٹ میکانزم کے ذریعے افراط زر کو کنٹرول کرنے کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کیونکہ بین الاقوامی تیل و گیس کی قیمتوں کو پالیسی ریٹ میکانزم کے ذریعہ ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان مجموعی طور پر غیر رسمی معیشت ہے کیونکہ تقریبا ساٹھ سے پینسٹھ فیصد اقتصادی ترقی کا حصہ معیشت کے غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہے‘ جو متوسط طبقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ متوسط طبقے کے سکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقتصادی ترقی کا غیر رسمی شعبہ توانائی کے نرخوں میں اضافے اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر سے متاثر ہو رہا ہے۔ اقتصادی ترقی اور متوسط طبقہ‘ دونوں ہی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے اگر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے تو معاشی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے وسیع تر مفاد میں درست فیصلے کئے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے متوسط طبقے کو معدوم ہونے سے بچانا بھی ممکن ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)