پاکستان سے پڑھے لکھے اور ذہین افراد کی بیرون ملک نقل مکانی گزشتہ برس سے عوامی حلقوں میں زیربحث ہے۔ اِس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مضامین میں مختلف ذرائع سے اعداد و شمار اُور مختلف مکاتب فکر سے تجزئیات سامنے آئے ہیں جن سے موضوع کی حساسیت اور اِس کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی ای او ای) کی جانب سے جولائی دوہزارتیئس تک بیرون ملک جانے والے افراد سے متعلق اعدادوشمار جاری ہوئے ہیں۔ اِن اعداد و شمار کے مطابق سال دوہزارتیئس کے دوران تارکین وطن کی 8 لاکھ سے زیادہ رہی جو سال دوہزاربائیس سے زیادہ ہے جبکہ بیرون ملک جانے والوں میں سب سے زیادہ افراد کی تعداد سال دوہزار پندرہ میں سامنے آئی تھی۔ سیاق و سباق کو محدود کرکے دیکھا جائے تو یہ بات درست نہیں کہ ہر سال تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا وبا کے دوران جبکہ سفری پابندیوں عائد تھیں اور اس عرصے کو اگر چھوڑ دیا جائے تو پاکستان سے ہر سال آٹھ سے نو لاکھ افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں اور اِس سے کئی گنا زیادہ تعداد بیرون ملک جانے کے لئے ویزوں کے حصول کی کوشش کرتی ہے تاہم ان وجوہات کو دیکھنا چاہئے جن کی وجہ سے لوگ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں‘ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے اِس حوالے سے ایک باقاعدہ تحقیق کی ہے اور ستمبر و اکتوبر دوہزاربائیس میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کی آرا ءکو شامل کیا گیا تھا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی طلبہ زیادہ تعداد میں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں؟ اِس سروے میں 52 فیصد سے زائد طلبہ نے جواب دیا کہ پاکستان فی الوقت ایک مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اور طلبہ کے لئے تعلیمی و پیشہ ورانہ مستقبل کو جاری رکھنے کے امکانات محدود ہیں جبکہ دیگر ساڑھے بیس فیصد طلبہ نے جواب دیا کہ وہ بہتر معاشی مستقبل اور بہتر طرز زندگی کے لئے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ دونوں وجوہات ہی حقیقت ہیں اور ایک ہی بنیادی وجہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ پاکستان میں تعلیم اور ملازمتوں کے وسیع تر مواقعوں کی کمی ہے جبکہ کمائی کے لئے آگے بڑھنے اور بہتر مستقبل کی تعمیر و تخلیق کرنے کے لئے نوجوانوں کی نظریں بیرون ملک موجود وسائل اور پاکستانیوں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر‘ قریب 73فیصد نوجوان جواب دہندگان (جو کہ بڑی اکثریت ہے) چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک منتقل ہو جائے چونکہ پاکستان میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اِس صورتحال میں اہل خانہ کی کفالت اور بہتر معاشی مستقبل محفوظ بنانا آسان نہیں ہے۔ ملک بھر کی جامعات (یونیورسٹیوں) میں داخلوں کی تعداد سال دوہزارایک دو میں دو لاکھ چھہتر سے بڑھ کر دوہزار بیس اکیس میں آٹھ فیصد بڑھی ہے۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے گریجویٹس کہ جنہوں نے پاکستان سے تعلیم مکمل کی ہے وہ بیرون ملک جانے کا رجحان نہیں رکھتے اور یہ ایک حیرت انگیز رجحان ہے۔ ’بی ای او ای‘ کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو سال دوہزارایک میں تین ہزار سے زائد جبکہ سال دوہزاربائیس میں 17 ہزار سے زائد پاکستان سے فارغ التحصیل طلبہ بیرون ملک گئے۔ دوسری طرف پاکستان میں گریجویٹ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح اکتیس فیصد ہے جس سے نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس کی سال دوہزاربائیس کی ایک رپورٹ کے مطابق فی الوقت ملک چھوڑنے کے خواہشمند پاکستانیوں کا تناسب سینتیس اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یہ تناسب پنجاب میں (پینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد)، اسلام آباد (ساڑھے چھتیس فیصد)‘ آزاد کشمیر میں (43.6 فیصد) اور بلوچستان میں (بیالیس فیصد) ہے۔ مجموعی طور پر نوجوانوں کی ’43 فیصد‘ تعداد چاہتی ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک منتقل ہو جائے۔پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی عمل دخل ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث نقل مکانی کرنے والے مجبور ہیں۔ ڈیوڈ والس ویلز نے اپنی کتاب ’دی ان ہیبیٹیبل ارتھ‘ اے اسٹوری آف دی فیوچر‘ میں لکھا ہے کہ سال دوہزارپچاس تک جنوبی ایشیائی خطے کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے سے کروڑوں افراد صرف اِس لئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ موسمیاتی اثرات کی شدت زیادہ ہو گی اور ایسے افراد کو ماحولیاتی پناہ گزین کہا جاتا ہے اور اگر ہم صرف پاکستان کی بات کریں تو مزید بیس لاکھ تارکین وطن ہوں گے جنہیں اِس شدید موسمیاتی صورتحال میں بے گھر ہونے کا خدشہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ دوہزاربائیس کے مطابق سال اُنیس سو نوے میں عالمی آبادی کا قریب تین فیصد تارکین وطن پر مشتمل تھا۔ سال دوہزاربیس تک یہ تعداد بڑھ کر تین اعشاریہ چھ فیصد ہو گئی اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ ایک تو ہوائی سفر کی بدولت دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچنا محفوظ و آسان ہو گیا اور دوسرا انٹرنیٹ نے دنیا بھر میں کام کاج (ملازمتوں) کے مواقعوں کی تشہیر کی ہے اور اب کسی بھی ملک میں آن لائن ملازمت حاصل کرنا پہلے سے زیادہ آسان ہے جبکہ کئی ممالک نے آن لائن کام کاج کرنے والوں کے لئے خصوصی ’اِی ویزا‘ کا اجرا بھی شروع کر دیا ہے۔ بہتر اور زیادہ معاشی مواقعوں کے لئے اگر کسی بھی ملک کے شہری نقل مکانی کرتے ہیں تو اِس میں حرج نہیں لیکن اگر ملک میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کیا جائے اور قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے تو ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو وطن چھوڑنے سے متعلق سوچنے سے روکا جا سکتا ہے جو پاکستان کی تعمیروترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اگر اُنہیں موقع دیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام