دفاعی اتحاد : مستقبل پر نظر

پانچ ممالک مصر‘ اِیتھوپیا‘ اِیران‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب اَمارات (یو اے ای) کی پانچ ریاستوں پر مشتمل اتحاد جسے ’برکس‘ کہا جاتا ہے کی رکنیت یکم جنوری دوہزارچوبیس سے نافذ العمل ہوئی ہے۔ اگست دوہزارتیئس میں جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) میں ہوئے سربراہی اجلاس میں چھٹے رکن ملک ’ارجنٹائن‘ کے بھی برکس میں شامل ہونے کا امکان تھا تاہم ارجنٹائن کے نئے صدر جیویئر ملی‘ جو دسمبر دوہزارتیئس میں اِقتدار میں آئے تھے‘ نے ’برکس‘ ممالک کو لکھے خط میں سابقہ حکومت کی خارجہ پالیسی سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے اُن کی رکنیت واپس لے لی گئی۔ مذکورہ دفاعی تنظیم میں پانچ نئے ارکان کے خیرمقدم کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ برکس نے توسیع کے اپنے ابتدائی ہدف کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ سال یہ اس گروپ کا بڑا ہدف تھا اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت اور دیگر اراکین کے درمیان رکنیت کے معیار پر کچھ الگ بحث کے باوجود یہ عمل آسانی سے آگے بڑھا ہے۔ نئے اراکین نے گروپ کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے‘ جو مجموعی جی ڈی پی یعنی ساڑھے اٹھائیس کھرب ڈالر یا عالمی معیشت کا تقریبا اٹھائیس فیصد ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ برکس کے نئے ارکان دنیا کے خام تیل کا تقریبا چوالیس فیصد پیدا کرتے ہیں جبکہ ایک چینی کمپنی نے حال ہی میں ایتھوپیا میں خام تیل نکالنا شروع کیا ہے۔ برکس‘ مصر‘ ایران‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دیگر نئے ارکان کے پاس تیل کے بڑے ذخائر ہیں اور وہ اوپیک (مصر کے علاو¿ہ) اِس کا حصہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک قیمتوں کو متاثر کرنے کے لئے تیل کی فراہمی کو منظم کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی عظیم حکمت عملی میں ”برکس پلس“ کا تصور پیش کیا گیا ہے جو خلیج عدن اور خلیج فارس سے مشرقی ایشیا تک تیل کی تجارت کے راستوں سمیت تیل کی مارکیٹ پر مشتمل ہے اور اِس سے تیل قیمتوں اور رسد پر اثر پڑے گا۔ تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک (سعودی عرب‘ روس‘ ایران اور متحدہ عرب امارات) کے علاوو¿ہ تیل کے بڑے خریدار (چین‘ بھارت‘ برازیل‘ مصر اور جنوبی افریقہ) برکس پلس کا حصہ ہیں اور بڑے تجارتی راستوں کے حکمراں ہیں۔ برکس پلس کے دو نئے رکن ممالک ایران اور سعودی عرب نے مارچ دوہزارتیئس میں چین کی ثالثی میں ہونے والے امن کے ذریعے مخاصمانہ تعلقات کو مستحکم کیا تھا۔ برکس پلس کا اگلا اہم قدم یہ ہوگا کہ برکس ممالک ’عالمی تسلط‘ کم کرنے کے لئے امریکی ڈالر کے علاو¿ہ دیگر کرنسیوں میں لین دین کریں گے۔ برکس کے اہم عناصر میں سے ایک نیا ترقیاتی بینک (این ڈی بی) کا قیام بھی شامل ہے جو برکس رکن ممالک کی جانب سے دوہزارپندرہ میں ترقیاتی فنانسنگ قرضوں کی فراہمی کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ این ڈی بی کی جنرل اسٹریٹجی سال دوہزاربائیس سے دوہزارچھبیس میں کہا گیا ہے کہ دوہزاراکیس میں بائیس فیصد کے مقابلے میں دوہزارچھبیس میں ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی کرنسیوں میں تیس فیصد تک اضافہ متوقع ہے تاہم اب تک این ڈی بی کی ستر فیصد فنڈنگ اور فنانسنگ امریکی ڈالرز میں کی گئی ہے۔ این ڈی بی نے چین میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے دوہزاراکیس اور دوہزاربائیس میں چینی یوآن میں قرض دینا شروع کیا تھا لیکن جنوبی افریقی کرنسی رینڈ میں بانڈز کی بولی اگست دوہزارتیئس میں جوہانسبرگ سمٹ سے قبل شروع ہوئی۔ بھارتی روپے‘ روسی روبل اور برازیلی ریئل اور نئے ممبروں کی کرنسیوں میں بانڈز اور قرض دینے کی رقم کی ساخت ابھی تک متعین نہیں کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان اقدامات کو روس کی چیئرمین شپ میں ادارہ جاتی شکل دی جائے گی۔روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے برکس کی صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے بیان میں برکس اقتصادی شراکت داری دوہزارپچیس کی حکمت عملی اور برکس انوویشن کوآپریشن دوہزاراکیس سے دوہزارچوبیس کے ایکشن پلان کے عملی نفاذ پر زور دیا ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی نظام میں برکس کا کردار بڑھانے‘ انٹر بینک تعاون میں اضافہ اور باہمی تجارت میں قومی کرنسیوں کے استعمال پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 قومی کرنسیوں کا استعمال امریکی ڈالر سے دور ہونے اور ممالک کو تبدیلی کی شرح سے بچانے کا آپشن پیش کرنے میں مدد کرسکتا ہے لیکن یہ تمام ممالک کے لئے بیک وقت عملی نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر روس نے خود طلب اور عالمی طاقت کی کمی کی وجہ سے بھارتی روپے کے ذخائر کو بے مقصد پایا۔ اسی طرح‘ یہ غیر یقینی ہے کہ کل کتنے ممالک مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے کے لئے تیار ہیں‘ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں میں جن کی عالمی قدر کم ہے۔روس یوکرین تنازعہ کی وجہ سے روسی روبل کی عالمی قدر کم ہوئی ہے لیکن یہ گراوٹ زیادہ سے زیادہ ’چینی کرنسی (یوآن)‘ کو فروغ دے سکتا ہے اور سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات جیسے تیل کے بڑے برآمد کنندگان کی کرنسیوں کے استعمال کے امکانات بھی اپنی جگہ موجود ہیں جن میں زیادہ لین دین (تجارتی اضافہ) متوقع ہے۔ برکس کو امریکہ کی زیر قیادت عالمی نظام کے مقابلے میں ایک متبادل اور ڈالرائزیشن کی مہم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاہم برکس کو باضابطہ بنانے اور آپریشنل کرنے اور امریکی ڈالر کے علاو¿ہ دیگر کرنسیوں کے استعمال سے اس پر انحصار کم کرنے کے بجائے صرف متبادل تجارتی امکان ہی ظاہر ہوا ہے۔ یہ آپشنز کثیر الجہتی عالمی نظام کی طرف پیش قدمی ہیں‘ جس پر فی الوقت کسی بھی عالمی طاقت کا غلبہ نہیں ہے۔ پاکستان کے نکتہ¿¿ نظر سے دیکھا جائے تو اِس بات کی ضرورت ہے کہ ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں کو سنجیدگی سے اور مو¿ثر طریقے سے آگے بڑھایا جائے اُور اِس کے لئے ایک ہمہ جہت نقطہ نظر اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اِس سے معیشت مضبوط ہوگی اور برکس یا دیگر ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں پوشیدہ امکانات (آپشنز) پاکستان بھی فائدہ اُٹھا سکے گا اُور عالمی تجارت کا حصہ بننے سے پاکستان کی کرنسی (روپے) کی قدر میں اضافہ ہوگا۔