فلسطین کے خلاف اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔ دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں ’جنوبی افریقہ‘ نے جس دلیرانہ مؤقف کا اظہار کیا ہے اور جس طرح مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں لا کھڑا کیا ہے‘ اِس حوالے سے غوروخوض ہونا چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ مسلم اور عرب ممالک کے برعکس جنوبی افریقہ کی فلسطین کے ساتھ کوئی اخلاقی‘ ثقافتی یا مذہبی وابستگی نہیں۔ وہ عرب ممالک کے مقابلے میں فلسطین سے تقریباً سات ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ تو پھر جنوبی افریقہ نے ہی کیوں صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی حالانکہ دیگر ممالک جوکہ فلسطین سے ہر لحاظ سے زیادہ قریب ہیں‘ فلسطینوں کے قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے کیونکہ فلسطین کی طرح جنوبی افریقی باشندے بھی سفید فام آبادکاروں کے ظلم کا شکار ہوچکے ہیں جو کہ اپنے خونی جبر اور نسل پرستی پر فخر کیا کرتے تھے۔ اسرائیل 1948ء میں بنا اور اُسی سال جنوبی افریقہ میں نسل پرست نوآبادیاتی دور نے اپنے قدم جمائے۔ اِس اتفاق سے قطع نظر دونوں ریاستوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ مقامی آبادی کی قیمت پر ان کی سفید فام آبادکاروں کی نوآبادی کی حیثیت میں ایک تعلق ہوتا ہے۔ یوں اِن دونوں ریاستوں کے ناپاک اتحاد کا باقاعدہ آغاز 1953ء میں اُس وقت ہوا جب جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم ڈینیئل ملان نے جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کیا اور یہ دونوں حکومتوں کے درمیان قریبی اتحاد کی ابتدا تھی جس کے بعد آنے والے برسوں میں دونوں آبادکار قوتوں کا اتحاد مضبوط ہوتا چلا گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا اور اپنے اپنے زیرِ قبضہ ریاستوں میں مظلوم عوام کو دبا کر رکھنے میں ایک دوسرے کی حمایت بھی کی۔ فلسطینی آبادی کا بھی مرکز سے تعلق منقطع کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کے لئے ’بنتوستان‘ بنائے گئے تاکہ انہیں ملک کے سیاسی نظام سے الگ رکھا جاسکے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان مماثلت کو حکومتی سطح پر بھی مانا گیا جیسے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم ہینڈرک ویرورڈ جو بنتوستان پروجیکٹ کے معمار کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ نے تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہودیوں نے عربوں کے ہاتھ سے اسرائیل لے لیا حالانکہ وہ اس زمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیل بھی ایک نسل پرست ریاست ہے اور جہاں اسرائیل بین الاقوامی فورمز پر نسل پرستی کی مذمت کرتا تھا‘ حقیقت یہ تھی کہ وہ جنوبی افریقہ کو اپنا قریبی سمجھنے لگا جبکہ اسرائیل کے جنرل رافائل ایتان نے جنوبی افریقی سیاہ فاموں کے بارے میں کہا کہ ’وہ سفید فام اقلیت پر قابض ہونا چاہتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے عرب ہمیں اپنے زیرِ کنٹرول لانا چاہتے ہیں۔ ہم جنوبی افریقہ میں موجود سفید فام اقلیت کی طرح ہیں اور ہمیں ان لوگوں کو روکنا ہے جو ہمیں اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔‘ اِن دونوں زیرِ تسلط آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھنا دونوں آباد کار حکومتوں نے اپنی ترجیح بنا لی۔ اسی مقصد کے تحت اسرائیل نے جنوبی افریقی سفیدفاموں کے مظاہرین کو کنٹرول کرنے والی گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کئے اور فوجی تربیت دی۔ 1980ء کی دہائی میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ میں تعینات کئے جبکہ جنوبی افریقہ کے فوجی اسرائیل میں تربیت حاصل کررہے تھے۔ اسرائیل نے اپنے جوہری پروگرام میں بھی نظریاتی ساتھیوں کی مدد کی۔ ان کی مدد سے جنوبی افریقہ نے چھ جوہری بم تیار کئے لیکن ان تمام بموں کو اس وقت تلف کردیا گیا جب جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک نے اپنے ملک کی عالمی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی اور جوہری پروگرام ترک کر دیا تھا۔ ساکھ کی بات کی جائے تو اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو عالمی دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لئے اکثر مداخلت کی‘ پھر چاہے وہ 1975ء کی ’پراپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ‘ ہو یا ’جوائنٹ سیکرٹریٹ فار پولیٹیکل اینڈ سائیکالوجیکل وارفیئر‘ کا قیام ہو‘ اسرائیل نے جنوبی افریقہ کی ہر مرحلے اور ہر مشکل میں مدد کی لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر عمل کا ردِعمل بھی ہوتا ہے اور جہاں ایک جانب اسرائیل اور نسل پرست جنوبی افریقی حکومت ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی تھیں وہیں دوسری جانب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)‘ نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس سے اپنے تعلقات استوار کررہی تھی۔ جس وقت سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے جنوبی افریقہ کے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا وہیں جنوبی افریقہ کے رہنماؤں میں شامل نیلسن منڈیلا نے 1990ء میں جیل سے اپنی رہائی کے بعد یاسر عرفات سے ملاقات کی جنہوں نے اوسلو معاہدے سے قبل منڈیلا سے اس معاملے پر مشورہ طلب کیا تھا۔ نیلسن منڈیلا بذات ِخود قضیہئ فلسطین کے حمایتی تھے جن کا اس حوالے سے مذکورہ قول بھی کافی مقبول ہے کہ ”ہماری آزادی‘ فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے“ یہ محض نعرہ نہیں تھا بلکہ پوری زندگی نیلسن منڈیلا نے اخلاقی اور مادی بنیادوں پر فلسطین کی حمایت کی اور پی ایل او کی طرح فلسطینیوں کی آزادی کے لئے جدوجہد میں اُن کا ساتھ دیا۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنوبی افریقی قوم جس نے تسلط اور ناانصافی کا سامنا کیا‘ وہ اب اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو بھی قاتل اور قابض قوت کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے ہر قسم کے دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے تاکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جاری ظلم و ستم کو روکا جا سکے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ضرار کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام