بنگلہ دیش میں سات جنوری کو عام انتخابات ہوئے۔ جن کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک اور متنازعہ کامیابی حاصل کی ہے وہ مسلسل چوتھی بار کامیاب قرار پائی ہیں! ذہن نشین رہے کہ محترمہ حسینہ واجد سال دوہزارنو سے برسراقتدار ہیں ‘ مجموعی طور پر انہوں نے اپنی پانچویں مدت صدارت میں کامیابی حاصل کی ہے۔ سرکاری نتائج کے مطابق حکمران جماعت عوامی لیگ (اے ایل) نے تین سو اراکین کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کی ہیں جو گزشتہ انتخابات سے چونتیس فیصد کم ہیں جبکہ باسٹھ نشستیں آزاد امیدواروں نے جیتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں واحد اپوزیشن جماعت جاتیہ پارٹی (جے پی) نے صرف گیارہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ نشستیں بھی پچھلے انتخابات سے پندرہ فیصد کم ہیں۔ عوامی لیگ نے سات جنوری کو ڈالے گئے ووٹوں میں تقریباً 75 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ تاریخی طور پر اِن انتخابات کا ٹرن آو¿ٹ چالیس فیصد سے بھی کم تھا۔ یہ 1991ءکے بعد سے دوسرا سب سے کم ٹرن آو¿ٹ ہے۔ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کے اختتام سے ایک گھنٹہ قبل ووٹ ڈالنے کی شرح ساڑھے ستائیس فیصد تھی تاہم بہت سے مقامی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد تیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ کم ٹرن آو¿ٹ واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ عام انتخابات میں شاید ہی کوئی جوش و خروش اور دلچسپی تھی۔ بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی تاریخ رہی ہے لیکن اس مرتبہ معاملہ مختلف رہا۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ رائے دہندگان نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دی۔ اس نتیجے کا مطلب یہ ہے کہ نئی پارلیمنٹ پر عوامی لیگ اور اس کے چھوٹے اتحادیوں کا غلبہ ہے۔ پارلیمنٹ میں شاید ہی کوئی اپوزیشن ہو گی۔بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق زیادہ تر آزاد امیدواروں کا تعلق عوامی لیگ سے ہے اور انہوں نے اس پورے عمل کو کچھ ساکھ دلانے اور یہ تاثر پیدا کرنے کے لئے انتخابات میں حصہ لیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود یہ ایک مسابقتی الیکشن تھا۔ یہ انتخابات محض انتخابی مشق تھی جس میں کوئی خاص حقیقت نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس پر صرف ایک پارٹی کی حکومت اور کنٹرول ہے۔ ملک کئی سالوں سے یک جماعتی حکمرانی کا سامنا کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کی ایک دہائی سے زائد طویل حکمرانی کے تحت زیادہ آمرانہ ہو گیا ہے۔ سات جنوری کے انتخابات کو ’جعلی انتخاب‘ کہا جا سکتا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو ان کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا گیا اور انتخابات سے قبل حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف گرفتاریوں اور کریک ڈاو¿ن نے اسے متنازع بنا دیا۔حزب اختلاف کی اہم جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) جس کی قیادت سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاءکر رہی ہیں‘ جو اس وقت جیل میں ہیں‘ نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں نگران حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر موجودہ حکومت کے تحت انتخابات ہوئے تو بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوگی۔ وزیر اعظم حسینہ واجد نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا اور انتخابات کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت پر دباو¿ ڈالنے کے لئے سڑکوں پر احتجاج اور ہڑتالوں کا سہارا لیا لیکن وہ سڑکوں پر مناسب تعداد کو متحرک کرنے اور ایک عوامی تحریک قائم کرنے میں ناکام رہے جس کی بنیادی وجہ حسینہ واجد حکومت کی طرف سے مسلسل کریک ڈاو¿ن اور جارحانہ ہتھکنڈے تھے‘ جو بالآخر طاقت کے استعمال سے مظاہروں پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔ شیخ حسینہ واجد کا سال دوہزارنو میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کارکردگی کا ملا جلا ریکارڈ رہا ہے۔ جمہوری محاذ پر انہیں اعتماد کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے جمہوری اقدار‘ ثقافت اور روایات کو پائمال کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپوزیشن کا تعاقب کیا بلکہ میڈیا پر بھی حملے کئے۔ انہوں نے اختلاف رائے اور تنقید کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔ انسانی حقوق‘ شہری آزادیوں اور کثیر الجماعتی جمہوریت کے حوالے سے بھی ان کا ریکارڈ کمزور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بنگلہ دیش میں کامیابی کے ساتھ یک جماعتی حکومت قائم کی لیکن معاشی اور سفارتی محاذ پر ان کا ریکارڈ بہت بہتر ہے۔ بنگلہ دیش نے سال دوہزارنو کے بعد سے جی ڈی پی میں نمو دیکھی ہے۔ بنگلہ دیش میں تیارکردہ ملبوسات کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے ایکسپورٹ پروموشن بیورو (ای پی بی) کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال دوہزارتیئس میں ملبوسات کی برآمدات سینتالیس ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔بنگلہ دیش ملبوسات برآمد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں مزدوروں کی اجرتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اُس رفتار سے نہیں جس رفتار سے گارمنٹس انڈسٹری کے منافع میں اضافہ ہوا ہے اور اِس دوران انتہائی غربت میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔ غربت‘ کم اجرت‘ افراط زر اور عوامی خدمات کی کمی جیسے مسائل کے باوجود بنگلہ دیشی معیشت نے حسینہ واجد کی قیادت میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب بنگلہ دیش اگلے چند سالوں میں درمیانی آمدنی والا ملک بننا چاہتا ہے۔ حسینہ واجد نے سفارتی محاذ پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارت‘ چین اور امریکہ سمیت مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں نازک توازن قائم کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ بھارت اور چین دونوں سے اپنے ملک کے لئے سرمایہ کاری حاصل کر رہی ہے۔ دو دیگر عوامل بھی ہیں جنہوں نے بڑی حد تک شیخ حسینہ کے اقتدار کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ایک طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا عدلیہ نے دو جماعتوں کی سیاسی بالادستی ختم کرنے کے لئے بنگلہ دیش کے سیاسی نظام کی تشکیل نو میں مدد دی۔ ایگزم بینک کے بانی اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر یونس کے گرد ایک نئی سیاسی قوت بنانے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خالد بھٹی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے انتخابات میں چند سال کی تاخیر کی گئی لیکن یہ ماڈل جڑ پکڑنے میں ناکام رہا اور عوامی لیگ نے جنوری دوہزارنو کے انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مذہبی انتہا پسند عناصر کی قیادت میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حسینہ واجد کو فوج اور عدلیہ کو پاک کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس ناکام بغاوت کو اپنی طاقت مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا اور مذہبی انتہا پسند گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاو¿ن شروع کیا لیکن جماعت اسلامی اور بی این پی سمیت ان کے مخالفین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اپنی سیکولر ساکھ کو نہ صرف عسکریت پسند عناصر بلکہ اپنے دائیں بازو کے قدامت پسند مخالفین کو بھی نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا۔ ان تمام عوامل نے شیخ حسینہ کے عروج اور عدلیہ‘ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اُن کی جیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اُن کا سیاسی مستقبل معاشی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے اُور جب تک بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا‘ ہر انتخابات کے بعد شیخ حسینہ کا دور اقتدار بھی قائم و دائم رہے گا۔