عالمی ادارہ¿ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک فیصد آبادی خودکشی کر رہی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا میں پانچ فیصد لوگ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار خود کو جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق سال دوہزاراُنیس میں دنیا بھر میں خودکشی کے تین چوتھائی (77فیصد) واقعات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوئے۔ اس رجحان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور خودکشی کی بلند شرح پاکستان میں بھی ایک سنجیدہ اور اہم تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہر دوسرے دن سوشل میڈیا پر ایک خودکشی کے معاملے کے بارے میں پوسٹ کی جاتی ہے جس میں کسی نے یا تو خودکشی کی ہے یا اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں سال دوہزار کے بعد سے خودکشی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ایک لاکھ افراد میں 8.9 افراد خودکشیاں کر رہے ہیں اُور یہ ایک گہرا سماجی مسئلہ ہے جس کے قانونی مضمرات بھی ہیں۔پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 325 کے تحت دسمبر 2022ءتک خودکشی کو مجرمانہ فعل قرار دیا گیا تھا جس کے تحت خودکشی کی کوشش کرنے والوں کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاتی تھی۔ حکومت نے تسلیم کیا کہ اس قانون کا مقصد لوگوں کو اس عمل کے ارتکاب سے روکنا اور ان اہم عوامل کی نشاندہی ہونی چاہئے کہ آخر کیوں لوگ اپنی زندگیاں ختم کرنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ قانونی فریم ورک اس مقصد کو پورا نہیں کر رہا جو سالوں میں خودکشی کی مسلسل بلند شرح سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بالآخر حکومت نے مذکورہ قانون منسوخ کیا تاہم صرف خودکشی کو جرم قرار دینے سے خودکشی کے گہرے مسئلے کا حل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں خودکشی کے مسئلے کے لئے جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے جو ان لوگوں کو درپیش بنیادی وجوہات اور چیلنجوں سے نمٹ سکے جو ناامیدی اور مایوسی کے گہرے احساس کا سامنا کرتے ہیں اُور یہ خیالات خودکشی کا باعث بن سکتے ہیں۔پاکستان میں خودکشیوں کی وجوہات کثیر الجہتی ہیں‘ جن کی جڑیں سماجی‘ معاشی‘ ثقافتی اور انفرادی عوامل کے باہمی و پیچیدہ تعلق سے جڑی ہوئی ہیں۔ ملک میں افراط زر کی بلند شرح اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی بحران کے پیش نظر غربت اور بےروزگاری جیسے سماجی و اقتصادی چیلنجز کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ کام کاج کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے‘ عصمت دری کے واقعات اُور گھریلو تشدد کے واقعات جیسے پہلوو¿ں میں پائے جانے والے صنفی تفاوت بھی خودکشی کے خطرات کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ثقافتی دباو¿ اور معاشرتی توقعات‘ بشمول روایتی اصولوں کے مطابق چلنے اور خاندانی توقعات پر پورا اترنے کا دباو¿ بھی تنہائی کے احساس کو جنم دیتا ہے۔ یہ تمام مسائل بالآخر شدید ذہنی صحت کے مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں‘ آگاہی (شعور) کی کمی‘ سماجی بدنامی اور حکومت کی طرف سے پیدا کردہ محدود مواقعوں کی وجہ سے طبی امداد نہیں مانگی جاتی۔ نتیجتاً لوگ اکثر خودکشی کو واحد آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حکومت اِس مسئلے سے لڑنے اور اِس سے نمٹنے کے لئے حکمت ِعملی اپنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ملک میں خودکشی کی بلند شرح حکومت کی جانب سے مضبوط اور مو¿ثر ذہنی صحت کی پالیسی تیار کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسے اقدامات جو ذہنی صحت سے متعلق سہولیات کے لئے فنڈنگ کی صورت ترجیح ہوتی ہے وقت کی ضرورت ہے۔ خودکشی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے حکومت ذرائع ابلاغ کی مدد لے سکتی ہے اور اِس بارے میں عوام کے لئے اعلانات جاری کئے جا سکتے ہیں جن سے آگاہی پیدا ہوگی۔ ذہنی امراض کی جلد از جلد نشاندہی اور علاج کو یقینی بنانے سے خودکشی کے رجحانات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ معاشی مسائل سے دوچار عوام کی ذہنی صحت کی دیکھ بھال ضروری ہے۔ذہنی صحت سے متعلق قانون کا فریم ورک سال دوہزاراکیس میں پیش کیا گیا جو مینٹل ہیلتھ آرڈیننس کہلاتا ہے اور جس کے تحت ہر صوبے نے اپنی قانون سازی کر رکھی ہے تاہم‘ مالی وسائل اور حکومتی توجہات کی کمی کی وجہ سے مذکورہ فریم ورک پر خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور اِس حوالے سے کوئی تفصیلی منصوبہ یا خاکہ پیش نہیں ہوا ہے جو پاکستان میں خودکشی کی بلند شرح کی اہم وجہ ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایمان حسن جگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اِس حوالے سے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا بہت ضروری ہے جس میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی‘ سماجی و اقتصادی ترقی‘ قانونی اصلاحات اور زیادہ معاون و سمجھدار معاشرے کو فروغ دینے کے لئے ثقافتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے مارچ دوہزار تیئس میں ’ہمراز‘ کے نام سے دماغی صحت کی ایک ایپ (ایپلی کیشن) کا اجرا کیا۔ اس ایپ کا مقصد خودکشی کے خیالات یا کسی بھی قسم کی ذہنی صحت کی ہنگامی صورتحال میں مبتلا کسی بھی شخص تک رسائی اور اُسے مدد اور بالخصوص مریضوں کو مکمل رازداری کے تحت علاج فراہم کرنا ہے۔ یہ ایپ ماہرین نفسیات کے تعاون و شراکت سے کام کر رہی ہے تاہم اس کی بھی کچھ حدود ہیں اور یہ معاشرے کے سبھی طبقات بالخصوص کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے افراد کے لئے یکساں طور پر قابل رسائی نہیں۔ خودکشی کی روک تھام کی مو¿ثر حکمت عملی کے لئے بہتر نگرانی کی ضرورت ہے۔ خودکشی کے مقدمات کا اندراج‘ خودکشی کی کوششوں کی طبی جانچ اور خود رپورٹ کردہ خودکشی کی کوششوں کے بارے میں قومی سطح پر معلومات جمع کرنے جیسے اقدامات اجتماعی طور پر پاکستان میں معیار زندگی کو بہتر بنانے اور وقت کے ساتھ ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کی کوششوں کو کامیاب بنا سکتے ہیں تاکہ ایک پھلتا پھولتا معاشرہ تیار کیا جاسکے جس میں ہر شخص کو یکساں زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔