قومی ترقی : نوجوانوں کا کردار

پاکستان میں آبادیاتی تبدیلی گزشتہ چند دہائیوں سے سست روی کا شکار رہی ہے اور قومی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح کم از کم پچھلے چھ سالوں سے تقریباً دو فیصد پر کھڑی ہے جو جمود کا شکار بھی ہے تاہم ماہرین ان پریشان کن اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ موجودہ افرادی وسائل سے معاشی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ عمر کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کے ذریعہ فراہم کردہ مواقع ہوتے ہیں جنہیں اگر صحیح وقت اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو قومی معاشی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں‘ بشرطیکہ آبادی میں اضافہ کنٹرول میں رہے۔ اگر کسی ملک میں پندرہ سے انتیس سال کی عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو تو اِس سے مزدوری اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے تاہم‘ یہاں جس چیز پر غور کرنا ضروری ہے وہ افرادی قوت جیسے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ہے اور اس سلسلے میں بروقت کاروائیوں کی ہے کیونکہ اگر اِس موقع کو ضائع کر دیا گیا تو آبادی کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی فی الوقت کل آبادی ساڑھے چوبیس کروڑ ہے اور اِس آبادی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ پاپولیشن ریفرنس بیورو کی ورلڈ پاپولیشن ڈیٹا شیٹ دوہزارتیئس کے مطابق‘ پاکستان کی آبادی میں ہر سال دو فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہی پیدائش اور اموات کے درمیان فرق بھی ہے جبکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح ایک اعشاریہ دو فیصد ہے۔ زیادہ آبادی کے فوائد بھی ہیں۔ پاکستان میں اڑتیس فیصد آبادی پندرہ سال سے کم عمر ہے جبکہ چار فیصد پینسٹھ سال سے زائد عمر کی ہے جو بیالیس فیصد آبادی کے زیر کفالت ہے۔ خوش آئند یہ ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے اور اِس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جس سے اگر درست فائدہ اٹھایا جائے تو قومی ترقی میں نوجوان کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اِس حوالے سے ایک تحقیق ڈاکٹر درنایاب نے کی ہے جن کے مطابق ”آبادی کا مطلب ایک ایسا تناسب ہوتا ہے جو ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں کمی یا اضافہ کرتا ہے اور اگر کوئی ملک اپنے ہاں افرادی قوت کی مہارت میں اضافہ کرے تو اِس سے بہتری آ سکتی ہے لیکن کئی ایسے اعدادوشمار بھی ہیں جو تشویشناک ہیں جیسا کہ یہ بات کہ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کم ہو رہی ہے کیونکہ ملک کی شرح پیدائش کم ہو گئی ہے اور اگر نوجوانوں کی تعداد کم ہوتی ہے تو افرادی قوت کی بہبود اور افرادی قوت سے فائدہ اٹھانے جیسی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانا نسبتاً مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ مزدوروں کی تعلیم و تربیت اور ان کی مہارت میں سرمایہ کاری میں خاطرخواہ بچت نہیں رہتی۔ لیبر فورس سروے دوہزاربیس اکیس کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی مجموعی شرح چھ اعشاریہ تین فیصد جبکہ خواتین میں بے روزگاری کی غیر معمولی طور پر بلند شرح قریب نو فیصد ہے۔ کوریا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں ’ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ‘ (آبادی یعنی افرادی وسائل) سے فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں۔ تھائی لینڈ نے بھی آبادی کنٹرول کر کے اور آبادی کی بہبود کیلئے اقدامات کے ذریعے معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب وہاں افرادی قوت زیادہ تناسب سے ہنرمند ہے۔ لیبر فورس سروے دوہزاربیس اکیس کے تخمینے کے مطابق پاکستان کی آبادی میں اکثریت بنیادی طور پر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ایک اندازے کے مطابق سولہ کروڑ افراد کام کاج کرنے کی عمر کے زمرے میں آتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اِس قدر افرادی قوت ہونے کے باوجود بھی پاکستان خاطرخواہ معاشی ترقی نہیں کر پا رہا تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ افرادی قوت کی تعلیم و تربیت کی سہولیات کم ہیں۔ نوجوانوں کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ شاید سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ سمجھنا ہے کہ جب ہماری آبادی کا اتنا بڑا حصہ غیر ہنرمند اور بے روزگار ہے‘ تو انہیں ممکنہ طور پر ڈپریشن سے کیسے بچایا جا سکتا ہے یا انہیں ملک دشمن سرگرمیوں یا جرائم سے کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے لہٰذا اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ نوجوان غیرقانونی طریقوں سے اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں سرمایہ کاری کرکے قومی ترقی کو زیادہ تیز رفتار پائیدار اور کثیرالجہتی بنایا جا سکتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر میمونہ قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)