طلبہ میں مفت لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ یا سمارٹ موبائل فونز تقسیم کرنے سے تعلیمی عدم مساوات دور نہیں ہوگی۔ ٹیکنالوجی کا استعمال درس و تدریس سمیت جملہ شعبوں میں بڑھانے کے لئے ایک منظم قومی پالیسی بنانا پڑے گی جس کا اثر اور سیاق و سباق زمینی حقائق سے تال میل رکھتا ہو۔ اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی بذات خود اچھی یا بُری نہیں بلکہ اِس کے استعمال پر نتائج منحصر ہوتے ہیں اور اگر ملک میں یکساں نظام تعلیم نہیں ہے اور اعلیٰ‘ متوسط و ادنی تعلیمی ادارے بیک وقت چل رہے ہیں جن کے الگ الگ نصاب ہیں اور الگ الگ قسم کی سہولیات ہیں تو پھر طبقات میں تقسیم اِس تدریسی نظام کو صرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے درست نہیں کیا جا سکتا بلکہ ضروری ہے کہ درس و تدریس کی معیاری سہولیات سے محروم افراد کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بلند کیا جائے اور اِس سلسلے میں تعلیمی و تدریسی کوششوں کو طاقت دینے کے لئے اگر ٹیکنالوجی کا استعمال بطور ضرورت کیا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں البتہ ہر عمل کی طرح اِس مرتبہ بھی سوچنے سمجھنے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔گزشتہ چار برس میں پاکستان میں ایک بحث جاری ہے جس کا عنوان ہے کہ ”ٹیکنالوجی ان ایجوکیشن“ یعنی شعبہ تعلیم میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے کیا جائے۔ اِس بحث میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ ایک ایسی صورتحال میں ٹیکنالوجی پر انحصار کس حد تک کیا جا سکتا ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پینے کے صاف پانی‘ بیت الخلا‘ کمروں اور چار دیواری جیسی بنیادی سہولیات و ضروریات بھی میسر نہیں ہیں۔ پاکستان نے کورونا وبا کا دور دیکھا جس دوران بہ امر مجبوری ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ’ڈیجیٹل وسائل‘ پر انحصار ہونے لگا لیکن اِس موقع پر بھی یہ بات سامنے آئی کہ تیسری دنیا کے ممالک ٹیکنالوجی کے استعمال میں ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے رہے اور شاید یہی وجہ اِن کی پسماندگی کی بھی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کرتے اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک دیگر ممالک کے تجربات اور اُن تجربات کے نتائج سے خاطرخواہ فائدہ بھی نہیں اُٹھاتے۔ تعلیم سب کا حق ہے اور تعلیم کی فراہمی اور ترسیل یقینی بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال دیگر حکمت عملیوں پر غالب ہونا چاہئے جس کے لئے قومی سطح پر ایک مربوط اور مضبوط تکنیکی بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ دنیا مصنوعی ذہانت سے فائدہ اُٹھا رہی ہے جس نے ٹیکنالوجی کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے تو وقت ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال درس و تدریس کے شعبے میں بھی کیا جائے جس سے ہر طالب علم کو انفرادی حیثیت سے دیکھتے ہوئے اُس کی سمجھ بوجھ اور صلاحیت و اہلیت کے مطابق تدریس کا عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔ٹیکنالوجی اِس بات کو ممکن بناتی ہے کہ کوئی طالب علم اپنی مرضی کے مطابق سیکھنے کے لئے معاونین اور ذاتی نصاب کا انتخاب کرے۔ یہ نصاب اُسے ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہو اور یہی ”ٹیکنالوجی ان ایجوکیشن“ کی تشریح ہونی چاہئے جس کے ذریعے آئین پاکستان کے آرٹیکل ’پچیس اے‘ کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی بحران کا سیاق و سباق یکساں اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں ڈھائی کروڑ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ (چھبیس ملین) سے زائد بچے سکولوں سے استفادہ نہیں کر رہے۔ تعلیمی غربت کی شرح 75فیصد ہے۔ پاکستان کثیر الجہتی تعلیمی عدم مساوات کا شکار ہے۔ سکول نہ جانے والے تمام بچے سماجی یا معاشی بہتری کی قومی کوششوں کا حصہ نہیں۔ وقت ہے کہ سکول جانے کی عمر والے ہر بچے کو تعلیم دی جائے اور سادہ و آسان نصاب تعلیم بنایا جائے۔ اگر کسی معاشرے میں کچھ لوگ کبھی بھی سکول نہیں جاتے یا وہ کسی وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں تو اِس کی وجہ وسائل کی کمی ہو سکتی ہے۔ نظام کی کمزوری ہو سکتی اور فیصلہ سازوں کی جانب سے مسئلے کو حل کرنے میں عدم دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو ’ڈیجیٹل عدم مساوات‘ پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یکساں کثیر الجہتی اور متنوع ماحول تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ایسے آلات‘ رابطے‘ مواد اور کمیونٹیز تک رسائی بھی ٹیکنالوجی ہی سے ممکن ہے جو سکولوں میں فراہم کردہ بنیادی سہولیات کی کمی‘ مہنگی درسی کتب‘ نصابی رکاوٹیں‘ ناقص انتظامیہ یا معیاری اساتذہ کی کمی سے متعلق ہیں۔فیصلہ سازوں کی تعلیم بالغاں اور بالغ ناخواندہ افراد کو ٹیکنالوجی کے ذریعے خواندہ بنانا چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ پیچیدہ ہے اور کم خواندگی سے ہنرمند افرادی قوت حاصل نہیں ہو رہی۔ اِسی طرح دور دراز علاقوں میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں اور قومی زبانوں میں بھی فاصلہ ٹیکنالوجی کی مدد سے دور کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے کلاس رومز میں سیکھنے سکھانے کے عمل اور تعلیمی نتائج کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا؟ تعلیم پاکستان کو درپیش بہت سے چیلنجوں سے نمٹنے کا حل ہے اور اِس حل کو پائیدار بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا سکتا ہے تاہم اِس کے فوائد اور نقصانات کے سیاق و سباق کو سمجھنا اور بنیادی باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زہرا مغیث۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
سیاق و سباق کے بغیر جب حکمت عملیاں (پالیسیاں) بنائی جاتی ہیں تو اِن کی کامیابی کے امکانات محدود رہتے ہیں۔ تعلیمی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔ درس و تدریس کا نیٹ ورک وسیع کرنے میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے شعبے میں کفایت شعاری اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام وقت کی ضرورت ہے۔ مقامی برادریوں کو اسٹیک ہولڈرز کے طور پر درس و تدریس کے عمل میں شامل (مشغول) کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مخصوص سیاق و سباق کے مطابق نصاب تعلیم اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ٹیکنالوجی سے مدد وقت کی ضرورت ہے اور ایک ایسا ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے جو سب کے لئے ڈیجیٹل اور تعلیمی وسائل تک رسائی کو ممکن بنائے اور اِس سے تعلیم کا فروغ جیسا ہدف عملاً حاصل کیا جائے۔