موسمیاتی تبدیلیاں : برفانی تودے خطرے میں

ستمبر دوہزارتیئس میں سکردو کے دورے کے دوران راقم الحروف کو میزبانوں نے موسم سرما کی برفباری کے دوران دوبارہ آنے کا کہا اور کہا کہ گلگت بلتستان‘ برفباری کے بعد حیرت انگیز طور پر خوبصورت ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اسکردو میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کر کے ہمالیائی وادی کو ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے سارا سال کھلا رکھنے کا خصوصی بندوبست کیا ہے اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے گلگت بلتستان کے سیاحتی مرکز کا دورہ کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں تاہم گزشتہ چند ماہ سے اسکردو سے فون پر اطلاعات مل رہی ہیں کہ موسم میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے اور اِس سال برفباری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے پورا علاقہ نسبتاً گرم اور خشک سردی کی لپیٹ میں ہے جبکہ درجہ حرارت بھی معمول سے زیادہ ہے۔ دنیا کا دوسرا بلند ترین مقام جو سطح مرتفع پر واقع ہے اور جسے دیوسائی کہا جاتا ہے سکردو سے تقریباً ستائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہر سال اکتوبر اور جنوری کے درمیان یہاں دس فٹ سے زیادہ برف پڑتی ہے۔ یہ برف موسم بہار کے اختتام تک پگھل کر ستپارہ جھیل میں شامل ہو جاتی ہے‘ جہاں اسکردو کے رہائشیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آبپاشی‘ بجلی کی پیداوار اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے چھوٹا ڈیم تعمیر ہے۔ یہ بات
 موسمیاتی ماہرین اور مقامی افراد کے لئے یکساں پریشانی کا باعث ہے کہ اگر اِس خطے میں رواں برس دس فٹ کی بجائے صرف تین انچ سے بھی کم برف پڑی ہے تو اُن آبی وسائل کا مستقبل کیا ہو گا جن کا انحصار موسم سرما کی برفباری پر ہوتا ہے؟دنیا کے جنوبی خطے (گلوبل ساو¿تھ) کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ ہمالیائی گلیشیئرز کا مرکز ہے اور دنیا بھر میں سیاح یہاں کی برفباری دیکھنے آتے ہیں۔ دنیا کے سات بڑے گلیشیئرز میں سے تین گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ یہاں عام طور پر موسم سرما کے دوران غیرمعمولی طور پر زیادہ برف باری ہوتی ہے‘ جس کا دورانیہ اکیس دسمبر سے اُنتیس جنوری تک جاری رہتا ہے لیکن اِس مرتبہ اُنتیس جنوری تک شاید ایک فٹ برف بھی نہ پڑے۔ معمول رہا ہے کہ گزشتہ چالیس دنوں تک جاری رہنے والی برفباری کے موسم کے دوران‘ ہر چیز برف سے ڈھکی رہتی تھی۔ دنیا بھر سے سیاح برفباری کے اِن دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے گلگت بلتستان کا رخ کرتے تاہم ہمالیائی خطے کی تاریخ میں پہلی بار موسم سرما کے تین مہینے بارش اور برف باری کے بغیر گزرے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق زیادہ درجہ حرارت اور فضائی آلودگی کی وجہ سے ہمالیہ کے گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ موسمیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے صدیوں سے بہنے والے بے شمار قدرتی چشمے اور آبشاریں ختم ہو جائیں گی اور ہمالیہ اور قراقرم کے اونچے پہاڑوں میں رہنے والے لوگ پانی کی تلاش میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسی طرح آنے والے مہینوں میں پانی اور خوراک کے بحران سمیت دیگر سنگین چیلنجز بھی سامنے آسکتے ہیں جو صرف پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ دیگر علاقوں میں بھی پھیل جائیں گے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے وادیوں میں سیلاب آ سکتا ہے ۔برطانوی نشریاتی ادارے (برٹش براڈکاسٹنگ) بی بی سی کی ایک رپورٹ جو کہ پانچ سال قبل شائع ہوئی تھی میں یہ کہتے ہوئے خبردار کیا گیا تھا کہ مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلی ہمالیہ کے گلیشیئرز کے لئے سنگین خطرات کا باعث ہے اور
 اگر ترجیحی اقدامات نہ کئے گئے تو چھتیس فیصد برفانی تودے (گلیشیئرز) ختم ہو جائیں گے۔ یہ برفانی تودے پاکستان‘ بھارت‘ چین‘ نیپال اور بھوٹان سمیت آٹھ ممالک میں رہنے والے کروڑوں افراد کے لئے پانی کی فراہمی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ہمالیہ کے گلیشیئر دنیا کے سب سے اہم دریاو¿ں جیسے گنگا‘ سندھ‘ پیلے اور میکانگ کو قدرتی پانی کی فراہمی کرتے ہیں۔ ہمالیائی خطے میں خشک ترین موسم سرما کی صورتحال صرف پاکستان کے زیر انتظام علاقوں تک محدود نہیں بلکہ بھارت‘ نیپال اور بھوٹان سمیت تمام ہمالیائی ممالک کو کم و بیش ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ موسمیاتی علوم کے ماہرین اور سائنس دان اِس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے رواں صدی کے آخر تک اِن گلیشیئرز میں سے آدھے غائب ہو جائیں گے۔ ہمالیائی خطے میں گلیشیئرز کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں پورے خطے میں قحط‘ غذائی عدم تحفظ اور پانی کا بحران پیدا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ موسمیاتی تبدیلیاں صرف کسی ایک ملک یا خطے کا معاملہ (مسئلہ) نہیں بلکہ ہمالیہ میں رہنے والے تمام ممالک کو درپیش مشکل ہے اور اِس سے مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)