آبادی : عدم توازن

پاکستان کی آبادی میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟ بیورو برائے شماریات کی جانب سے سال دوہزارتیئس کی تازہ ترین ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج جاری کئے گئے ہیں جن میں صنف کے لحاظ سے آبادی کو ظاہر نہیں کیا گیا لیکن دوہزارتیئس میں مردوں اور خواتین کی آبادی کا تخمینہ لگانے کیلئے دوہزارسترہ کی مردم شماری کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر 105 مردوں کے مقابلے 100 خواتین ہیں۔ حالیہ مردم شماری سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ سے زیادہ ہے جس میں بارہ کروڑ سینتیس لاکھ سے زیادہ مرد اور گیارہ کروڑ اٹھتہر لاکھ خواتین ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں خواتین کی متوقع عمر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسکے باوجود عالمی آبادی میں مردوں کی تعداد خواتین سے بھی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ڈیموگرافک ائر بک سال دوہزاربیس کے مطابق عالمی آبادی میں فی ایک سو خواتین پر ایک سو ایک اعشاریہ سات مرد ہیں۔ سال دوہزاربیس میں دنیا کی آبادی 7 اعشاریہ 8 ارب تھی جس میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ زیادہ تھی۔ ڈیموگرافک علوم کے ماہرین و محققین اِس کی تین وجوہات گنواتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آبادی میں جنسی تناسب مختلف رہتا ہے اور یہ شاذ و نادر ہی برابر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مرد اور عورت کی متوقع عمر اور شرح اموات کے درمیان فطری طور پر فرق ہے۔ دوسرا یہ کہ پیدائش کے وقت جنسی تناسب میں فطری فرق ہوتا ہے یعنی نوزائیدہ مردوں اور عورتوں کی تعداد کے درمیان تناسب مختلف ہوتا ہے۔ تیسری وجہ مرد معاشی وجوہات کی وجہ سے نقل مکانی کرتے ہیں اور یہ تین وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کچھ ممالک میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ رہتی ہے۔ مذکورہ تینوں وجوہات حیاتیاتی‘ ثقافتی‘ انسانی‘ صحت عامہ‘ ٹیکنالوجی‘ جنگوں‘ وبائی امراض اور معاشی قوتوں کے پیچیدہ امتزاج پر منحصر ہیں۔ متوقع عمر اور خاص طور پر‘ کسی ملک کی خواتین اور مرد کی متوقع عمر کے درمیان فرق جنسی تناسب ’فیصلہ کن‘ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ روس میں‘ مردوں کی متوقع عمر صرف چھیالیس سال ہے جبکہ وہاں خواتین کی اوسط متوقع عمر قریب 75 سال ہے۔ روس کی طرح‘ کئی مشرقی یورپی ممالک میں مردوں کی متوقع عمر کم جبکہ خواتین کی عمریں زیادہ ہیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی معاشی پالیسیاں اور عوامی پالیسیاں مناسب طریقے سے تشکیل دی جائیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جائے تو ان میں لوگوں کی عادات اور ثقافت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ سال دوہزاراکیس میں روس کی آبادی میں ہر ایک سو خواتین پر چھیاسی مرد تھے اور یہ جنسی تناسب خواتین کے حق میں تھا‘ جو دنیا میں سب سے کم تھا۔ اِس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنسی تناسب کسی ملک میں اِنسانی و دیگر ترقی کے ساتھ منسلک نہیں۔ اِس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ چند ممالک میں زیادہ جنسی تناسب (خواتین کے مقابلے میں زیادہ مرد ہونے) کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جیسا کہ چین اور بھارت میں جہاں مشترکہ آبادی دنیا کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہے۔ اسکی بنیادی وجوہات پیدائش کے وقت زیادہ جنسی تناسب ہیں۔ 1979ءمیں چین میں ایک بچے کی پالیسی متعارف کروانے کے بعد پیدائش کے وقت جنسی تناسب ایک سو سات سے بڑھ کر 117.8 ہو گیا اگرچہ اس پالیسی کو چالیس کروڑ بچوں کی پیدائش روکنے کا سہرا دیا جاتا ہے لیکن اسکے بہت سے منفی نتائج برآمد ہوئے جن میں چھوڑی گئیں نومولود لڑکیوں کی اموات بھی شامل ہیں۔ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے انیس سو نوے میں نشاندہی کی تھی کہ ”صحت‘ طب اور غذائیت میں مردوں اور عورتوں کو یکساں توجہ ملنے کی توقع کے لحاظ سے ’گمشدہ خواتین‘ کی تعداد قابل ذکر حد تک زیادہ ہے اور آبادی کنٹرول کرنے کے چکر میں خواتین کو عالمی سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت جنسی تناسب کی تاریخ افسوس ناک ہے جس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صنفی امتیاز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اور ایسی ثقافت بھی موجود ہے جس میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے اگرچہ اِن خطوں میں بنیادی طور پر مشرقی اور جنوبی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے بیٹے کو ترجیح دینے سے پیدا ہونے والا صنفی امتیاز کسی ایک ملک کا خاصہ نہیں بلکہ اِسے عالمی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ریاض الدین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)