گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایران میں فی کس آمدنی 8 ہزار 525 ڈالر سے کم ہو کر تین ہزار ڈالر سے بھی کم ہو گئی ہے۔ گزشتہ چھ برس کے دوران ایرانی کرنسی ’ریال‘ کی قیمت چالیس ہزار ریال فی ڈالر سے کم ہو کر چار لاکھ اٹھاسی ہزار ریال فی ڈالر رہ گئی ہے۔ ایرانی ریال اب ’دنیا کی سب سے کمزور کرنسی‘ ہے۔ ایران میں گزشتہ سال افراط زر (مہنگائی کی شرح) 55 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا جو کم ہو کر چالیس فیصد رہ گیا ہے۔ بے روزگاری اور افراط زر کی شرح کو یکجا کرنے والا ایک جامع پیمانہ‘ ایران کا مصائب انڈیکس ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے‘ جو اب تک کی بلند ترین سطح ہے اور چھ سال پہلے کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ایران کی تیل کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے‘ جو سال دوہزاربیس میں ساٹھ لاکھ (چھ ملین) بیرل یومیہ کی بلند ترین سطح سے کم ہو کر پانچ لاکھ بیرل یومیہ کی کم ترین سطح پر رہا اور اب تقریباً دس لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران‘ ایران کی آبادی کا صرف ساڑھے ستائیس فیصد باضابطہ روزگار سے وابستہ یعنی برسرروزگار ہے۔ کل 8 کروڑ 80 لاکھ (88 ملین) آبادی میں سے چار کروڑ چالیس لاکھ (چوالیس ملین) خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایران کے مرکزی بینک نے مالی مشکلات کا شکار اداروں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جن میں توصیح (ترقیاتی) کریڈٹ انسٹی ٹیوٹ‘ ایندیہ (فیوچر) بینک‘ سرمیہ (کیپیٹل) بینک‘ نور اور کیسپین شامل ہیں۔ معیاری طریقہ کار کے مطابق جب کوئی مالیاتی ادارہ دیوالیہ ہوتا ہے تو ایران کے پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) کا سرکاری ’بینک ِسپاہ‘ متاثرہ ادارے کا کنٹرول سنبھال لیتا ہے۔ ایران میں سول سرونٹس پنشن آرگنائزیشن‘ سوشل سکیورٹی آرگنائزیشن‘ آرمڈ فورسز پنشن فنڈ اور رورل اینڈ خانہ بدوشوں کے پنشن فنڈ جیسے اٹھارہ کنٹری بیوٹری پنشن فنڈز موجود ہیں۔ فی الحال‘ اِن میں سے تقریباً سبھی پنشن فنڈز کو اہم مالی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سال دوہزاربائیس کے عالمی انڈیکس میں ایران کو انتہائی بدعنوان ممالک کی فہرست میں پچیسویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔عالمی اقتصادی پابندیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے برسوں سے ایران کی معیشت پر جمود طاری ہے۔ سال دوہزارچوبیس میں‘ ایران کی ’جی ڈی پی‘ میں ڈھائی فیصد اضافے کی توقع ہے۔ اس معمولی بحالی کی وجہ تیل کے شعبے میں بڑھتی ہوئی سرگرمی‘ غیر تیل کی برآمدات میں بہتری اور حکومتی اخراجات میں اضافہ جیسے عوامل دیکھے گئے ہیں اگرچہ افراط زر کی شرح نسبتا زیادہ ہے لیکن یہ پچپن فیصد سے زیادہ کی اپنی حالیہ بلند ترین سطح سے نیچے آگئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایران میں گزشتہ چند برس سے غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے‘ خاص طور پر تیل و گیس اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاسداران انقلاب اور آرتیش (روایتی فوجی قوت) کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں ایران کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ اس اختلاف جو کہ دشمنی کی حد تک ہے کی وجہ سے فوج کا سیاست میں عمل دخل‘ اندرونی عدم استحکام‘ علاقائی تعاون میں رکاوٹیں‘ اصلاحات اور جدید کاری کی کوششوں میں رکاوٹیں دیکھنے میں آ رہی ہیں جن کی وجہ سے وسائل کی غیر ضروری نقل و حرکت اور وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔جمہوری اسلامی ایران میں سال دوہزارچوبیس کے عام انتخابات کا سلسلہ چند ماہ قبل شروع ہوا اور عام انتخابات یکم مارچ کو ہوں گے۔ ماضی قریب میں حکومت نے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا‘ جس میں بندرگاہیں‘ ریلوے اور پاور پلانٹس کی تعمیر و توسیع جیسے منصوبے شامل ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف مقامی معیشتوں کو متحرک کر رہے ہیں بلکہ اِن سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ایرانی قیادت کی جانب سے طویل مدتی اقتصادی ترقی کا عوام سے کیا گیا وعدہ بھی پورا ہو رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام