ٹیکس وصولی : اصلاحاتی منصوبہ  

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اصلاحات کے حوالے سے ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے‘ مذکورہ کونسل کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے‘ نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر شمشاد اختر کے وضع کردہ منصوبے کے مطابق ٹیکس اتھارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو پاکستان کی سرحدوں کے اندر ٹیکس وصولی کرے گا جیسے ان لینڈ ریونیو سروسز کررہا ہے۔ دوسرا حصہ فیڈرل بورڈ آف کسٹمز ہوگا جو درآمدات اور برآمدات کی نگرانی اور اِن پر عائد محصولات (ڈیوٹیز) کی وصولی کرے گا یعنی پاکستان میں ٹیکس وصولی کے نظام اور انتظامی شعبوں (ریونیو اتھارٹی) کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس کے علاو ہ ایف بی آر کی پالیسی سازی بورڈ کو بھی سیاسی عمل دخل سے پاک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بورڈ میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کے نامزد اراکین کی بجائے ٹیکس پالیسی ساز بورڈ میں مختلف بیوروکریٹس ٹیکس ماہرین معاشی امور کے ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا جائے گا۔ ایف بی آر کے پالیسی بورڈ کو وزارت خزانہ اور اس کے آپریشنل ونگ کو وزارت ِمحصولات کے ماتحت کیا جائے گا۔ حکمت عملی کے تحت اِن لینڈ ریونیو سروسز میں انکم ٹیکس سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی کے لئے الگ الگ ڈائریکٹر جنرل تعینات کئے جائیں گے۔ ایف بی آر کی تنظیم نو کے حوالے سے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ملک کے اندر ٹیکس وصولی کے وفاقی اور صوبائی الگ الگ اتھارٹیز کے بجائے مشترکہ اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے جو صوبائی ٹیکس جیسا کہ زرعی انکم ٹیکس خدمات پر جی ایس ٹی جائیداد پر ٹیکس وصولی اور وفاقی ٹیکس جمع کرنے اور اس حوالے سے ضلع کی سطح پر ٹیکس وصولی کا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا۔ یہ بات بھی خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ایف بی آر کی تنظیم نو سے متعلق کئے گئے فیصلوں (اصلاحاتی منصوبے)سے متعلق پاکستان کو قرض اور امداد دینے والے عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ایف بی آر میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہے تاہم اِس حوالے سے اب تک کی جانے والی تمام کوششیں کسی نہ کسی مرحلے پر پہنچ کر ناکام ہو جاتی ہیں۔ حالیہ اصلاحاتی منصوبے سے متعلق سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ ایف بی آر کی تنظیم نو اور الگ الگ بورڈ بنانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ اِس حوالے سے ضروری قانون سازی موجودہ نگران حکومت نہیں کرسکتی اور یہی وجہ ہے کہ جب اس حوالے سے سینیٹ میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی تو نگران حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ سوچا جارہا ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کو پہلے صدارتی حکم نامے کے طور پر نافذ کیا جائے اور بعدازاں اِن اصلاحات کو باضابطہ قانون سازی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ایف بی آر سے متعلق قانون جو سال دوہزارسات میں ترمیم کیا گیا تھا اس میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی مگر اس کے ساتھ چھ سے زائد دیگر قوانین اور ایک ہزار کے قریب قواعد کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ اس مجوزہ قانون پر اور تنظیم نو پر عوامی سطح پر یا اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی کرنا ابھی باقی ہے۔ ایک اعتراض تو یہ بھی اٹھایا جارہا ہے ٹیکس ریونیو اتھارٹی میں دیگر شعبہ جات کے سیکرٹریز کی شمولیت کا کیا فائدہ ہوگا کیونکہ انہیں ٹیکس وصولی کا کوئی تجربہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاو ہ آزاد ممبران ٹیکس ماہرین کی شمولیت میں مفادات کے ٹکراو کا معاملہ بھی پیش نظر ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ایک موقع پر شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اپنے محکمے کے اندر سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے ایسی پالیسی بنانے کی کوشش کی جس سے ان کے دوستوں اور صارفین (کلائنٹس) کو فائدہ پہنچے۔پاکستان میں بہت سا خام مال درآمد کرکے ویلیو ایڈ کیا جاتا ہے جو بعد میں برآمد ہوتا ہے یا مقامی سطح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسٹم اور ان لینڈ ریونیو کو الگ الگ کردیا جائے گا تو درآمدی ڈیٹا اور مقامی کھپت کا ڈیٹا الگ الگ ہوجائے گا جس سے ٹیکس وصولی میں مسائل ہوں گے۔ جب بھی ٹیکس ریفارمز (اصلاحات) کی بات ہوتی ہے تو بات نہیں سے شروع کی جاتی ہے اور اِس معاملے کو انتہائی پیچیدہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اِس میں عوام کی بجائے سرمایہ داروں کے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بنیادی ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایف بی آر کو موجودہ بیوروکریسی کے نظام سے الگ کر دیا جائے۔ ایف بی آر یا ٹیکس اتھارٹی ایک مختلف نوعیت کا ادارہ ہے جس کا کام ٹیکسوں کی وصولی ہے۔ انہیں الگ طرح کی ذمہ داریاں دی جانی چاہیئں۔ ٹیکس اتھارٹی کی تنظیم نو میں سب سے بڑا مسئلہ تنخواہوں کا ہوگا۔ ایف بی آر میں تنخواہیں مارکیٹ کی مسابقت سے ہونی چا ہئیں نہ کہ سرکاری تنخواہ کا اسٹرکچر ٹیکس افسران کو دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ گاڑی بچوں کی تعلیم صحت کی سہولیات بھی ہونی چاہئیں تاکہ ان کے پاس بدعنوانی کی گنجائش کم سے کم رہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان ٹیکس بار کا مو قف ہے کہ جو بھی اصلاحات ہیں ان کے بارے میں کافی عرصے سے بات چیت چل رہی ہے کہ ٹیکس پالیسی اور ٹیکس وصولی کو الگ کیا جائے۔ کسٹم کے حوالے سے اسمگلنگ اور انڈرانوائسنگ بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ اب جو منصوبہ لایا گیا ہے اس پر عملدرآمد کیسے ہوگا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کسٹم کے لئے وی باک نامی نظام موجود ہے مگر یہ نظام بھی پوری طرح ڈیجیٹل نہیں ہے۔ اصلاحات کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ پورا نظام بہت جامع اور مستحکم ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کسٹم ڈیوٹیز میں کافی حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ جب ان لینڈ ریونیو میں آئریس نظام کو متعارف کروایا گیا تھا تو ای فائلنگ کی ذیل میں مسائل سامنے آئے تھے اور بہت عرصے کی کوششوں کے بعد وہ نظام بہتر ہوا تھا۔ حکومتی نظام میں بیوروکریسی میں سب سے بڑا مسئلہ وہاں کام کرنے والے افسران کی ترقیاں مراعات اور اختیارات کا ہوتا ہے۔ اس میں وہ افسران شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتے ہیں اور وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی اور مراعات میں کمی نہ کی جائے۔ جن افسروں کو چیئرمین کی سطح پر پہنچنا ہوتا تھا اب وہ چیئرمین ایف بی آر نہیں بن سکیں گے۔ ممبر اور چیئرمین کی اسامی ختم ہوجائے گی۔ نئے آنے والے افسر جو سی ایس ایس کے بعد ایف بی آر میں تعینات ہوئے ہیں وہ بہت مطمئن ہیں کیونکہ ان کا پیشہ ورانہ سفر باقی ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ‘راجہ کامران۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)