مستقبل کے لئے منصوبہ بندی

نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں اعلی درجے کی مہارت حاصل کر کے مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مناسب ’دور اندیشی‘ کی مشق کے بعد اپنی ترقی کیلئے واضح روڈ میپ تیار کرنا ہوگا تاکہ ہم بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے اور ٹیکنالوجی سے متعلق جدید ایجادات اور نئے چیلنجوں سے باخبر رہیں۔ معاشی خوشحالی اب تقریباً مکمل طور پر اعلیٰ معیار کی تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ جدت اور انٹرپرینیورشپ پر منحصر ہو چکی ہے۔ دریافت کی دنیا وسیع اور مسلسل پھیلتا ہوا میدان ہے جو کسی ایک شعبے کا نام نہیں بلکہ اِس میں مختلف شعبوں کی کارکردگی شامل ہے اور اِس میں ہر شعبہ انسانی علم و ٹیکنالوجی کی ترقی پر انحصار کر رہا ہے۔ نئے مواد سے لے کر خلائی انجینئرنگ تک‘ بائیو ٹیکنالوجی سے لے کر خود بخود چلنے والی موٹر گاڑیوں تک اِن ابھرتے ہوئے شعبوں میں پیش رفت حیرت انگیز ہے۔ سائنس کی بات کی جائے تو گرافین کی مثال پر غور کیا جا سکتا ہے جس کے مطابق کاربن ایٹموں کی ایک واحد پرت ہے جسے ہیکساگونیل انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ گرافین غیر معمولی طاقت‘ لچک اور کنڈکٹیویٹی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ جو اس عنصر کو الیکٹرانکس‘ توانائی سٹوریج اور طبی آلات میں ایپلی کیشنز کیلئے مثالی بناتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی‘ نینو اسکیل پر مادے کی مختلف حالتوں سے تخلیق پانے والے جوہری اور مالیکیولر مواد اور آلات کو انجینئر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مختلف صنعتوں میں انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ نینو ٹیکنالوجی میں حالیہ پیش رفت میں کینسر کے علاج کیلئے ہدف شدہ ادویات کی فراہمی‘ اِس نظام کی ترقی‘ ماحولیاتی آلودگی کا پتہ لگانے کیلئے انتہائی حساس سنسر اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار کیلئے اعلی کارکردگی والے شمسی خلیات شامل ہیں۔ کوانٹم نظریئے اور کاربن نینو ٹیوب جیسے نینو میٹریلز الیکٹرانکس‘ فوٹونکس اور بائیو میڈیسن میں ایپلی کیشنز سے متعدد شعبوں میں جدت طرازی کو فروغ ملا ہے۔ پاکستان کا پہلا مکمل تحقیقی ادارہ جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ایک حصے میں اِس حوالے سے تحقیق کا عمل جاری ہے۔ اِسی طرح مصنوعی ذہانت کے کئی پہلو ہمارے سامنے ہیں‘ سال دوہزارپچیس تک اسکے معاشی اثرات پندرہ کھرب ڈالر سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کی پہلی قسم حال ہی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ساٹھ سال بعد دریافت کی گئی‘ جو منشیات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف فعال ہے اور اِس جرثومے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا اطلاق اب انسانی سرگرمیوں کے تقریباً ہر شعبے میں کیا جا رہا ہے اور اِس کی وجہ سے تہذیب و ثقافت کا چہرہ بھی بدل سکتا ہے۔ راقم الحروف کی زیر قیادت پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں متعدد بہترین مراکز قائم کئے گئے جو اب بھی فعال ہیں اِن میں ہری پور ہزارہ میں پاکستان آسٹریا یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس اینڈ انجینئرنگ (فاچوشول) اور کراچی یونیورسٹی میں آئی سی سی بی ایس قابل ذکر ہیں۔ ایک اور تیزی سے ترقی کرنے والا میدان ”کوانٹم کمپیوٹرز“ کا ہے۔ یہ تیز ترین سپر کمپیوٹرز کے مقابلے میں کروڑوں گنا تیز ہیں۔ جب مصنوعی ذہانت (سافٹ وئر) کوانٹم کمپیوٹرز (ہارڈ وئر) کے ساتھ کام کرنا شروع کرے گی‘ تو اِس سے دنیا میں غیرمعمولی انقلاب آئے گا جس کا کوئی ایک پہلو نہیں ہو گا۔ تیز ترین کمپیوٹرز کا عالمی سپیڈ ریکارڈ حال ہی میں لائٹ بیسڈ چینی کمپیوٹر جیوڑانگ 3.0 نے توڑ دیا ہے۔ یہ ایک مائیکرو سیکنڈ میں سب سے پیچیدہ مسائل کا حساب لگا سکتا ہے جبکہ دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹر ’فرنٹیئر‘ کو اس کام کو مکمل کرنے میں بیس ارب سال سے زائد کا وقت لگے گا۔ کوانٹم کمپیوٹر کی تین اقسام تیار کی جا رہی ہیں: الیکٹران پر مبنی (سپر کنڈکٹنگ)‘ ایٹم پر مبنی (آئن) اور فوٹون یا روشنی پر مبنی کمپیوٹرز۔ وقت ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی تیار کریں تاکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل اور اِن کی روشنی میں قومی ترقی کو عملاً ممکن بنایا جا سکے۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت بھی شامل ہونی چاہئے۔ اِس حقیقت کا ادراک قومی فیصلہ ساز جس قدر جلد کر لیں اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ایک مضبوط اور مائل بہ ترقی ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت ہی پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کا باعث ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)