عالمی منظرنامہ : گہری شراکت داری

سال دوہزارچوبیس کے آغاز میں‘ یورپی ممالک نے یوکرین کے خلاف جاری روسی جارحیت اور مشرق وسطی میں دوبارہ شروع ہونے والے تنازعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا تاہم یورپی ممالک اس وسیع تر منظرنامے کو نہیں بھول رہے جس میں دنیا کی معیشت سنگین بحران کی طرف گامزن ہے اور اِس سنگین صورتحال کا مرکز ’بحر ہند‘ و ’بحرالکاہل‘ کا خطہ ہے جہاں دنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً پچاس فیصد اور دنیا کی آبادی کا ساٹھ فیصد رہتا ہے۔ اس خطے میں امن اور استحکام یورپ اور دنیا کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں‘ یورپی یونین نے خطے کے ساتھ اپنے تعاون کو بہتر بنانے کے لئے مسلسل کام کیا ہے۔ خاص طور پر سال دوہزاربیس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کا اسٹریٹجک پارٹنر بن کر یورپی یونین نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ سال دوہزار اکیس میں اپنی ہند و بحرالکاہل حکمت عملی کا آغاز کرکے اُور سال دوہزاربائیس میں کامیاب یورپی یونین آسیان سربراہ اجلاس منعقد کرکے اور سال دوہزارتیئس میں بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ سموا معاہدہ اِس بات کی دلیل ہیں کہ یورپی یونین اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔یورپی یونین اور بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے درمیان اقتصادی روابط متاثر کن سطح پر پہنچ گئے ہیں‘ جس کا چالیس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خطے میں سمندری راستے دنیا کی اقتصادی شریانوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ ہر روز اوسطاً دوہزار بحری جہاز بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین سے یورپ اور واپس سامان لے جاتے ہیں تاہم اِس خطے میں سکیورٹی کا ماحول خراب ہو رہا ہے‘ جس پر یورپی یونین کو تشویش ہے۔ بحیرہ جنوبی چین سے لے کر آبنائے تائیوان‘ جزیرہ نما کوریا اور بحیرہ احمر تک کشیدگی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اہم عالمی اور علاقائی کھلاڑیوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی قانون اور کثیر الجہتی معاہدوں کا احترام کم ہو رہا ہے۔ طاقت اور جبر میں اضافہ اپنی جگہ پریشان کن ہے اور ہمیں ایک ایسی دنیا میں واپس جانے کا خطرہ ہے جہاں ’طاقت کے بل بوتے پر کئے گئے فیصلے ہی صحیح تصور ہوں گے۔‘یورپی یونین اس رجحان کا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کثیر الجہتی حل اور علاقائی نقطہ نظر یورپی یونین کے بنیادی مقاصد (ڈی این اے) کا حصہ ہیں اور یورپی یونین ہمیشہ بین الاقوامی قانون کا دفاع کرنے کو ترجیح دیتی ہے جو بشمول سمندر سے متعلق قانون اُور اِس حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی ایل او ایس) کے بارے میں ہیں۔ عالمی نظام کے دفاع کے لئے یورپی یونین بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں کثیرالجہتی تعاون کے لئے پرعزم ہے اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ زیادہ قریبی تعاون چاہتی ہے۔ یورپی یونین چین‘ جاپان‘ بھارت‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے ساتھ باقاعدگی سے سکیورٹی اور دفاعی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اِس تعاون اور بات چیت سے آگے بڑھ کر ٹھوس اور آپریشنل (عملی) سرگرمیوں کا احاطہ بھی کیا جا رہا ہے۔ آسیان کے ساتھ یورپی یونین اسٹریٹجک شراکت داری کے تحت سکیورٹی تعاون کر رہا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جوزف یوریل فونٹیلز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 یورپی یونین آسیان کے ارکان کے ساتھ علاقائی بحری مشقوں میں حصہ لے رہی ہے اور اِس کے ایشیائی شراکت داروں کی بحری افواج ہارن آف افریقہ کے قریب آپریشن اٹلانٹا میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں۔ یہ بہت ہی اچھی مثالیں ہیں کہ یورپی یونین دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کیا کر سکتی ہے تاہم مزید آگے بڑھنے کے لئے یورپی یونین اپنے رکن ممالک کی جدید صلاحیتوں کو ’سمارٹ سکیورٹی اینیبلر‘ کرنے کی تجویز پیش کئے ہوئے ہے‘ جس سے خطے میں شراکت داروں کی میری ٹائم سیکورٹی‘ سائبر سیکیورٹی‘ انسداد دہشت گردی اور غیر ملکی معلومات میں ہیرا پھیری و مداخلت کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یورپی یونین سمجھتی ہے کہ دنیا کو مستحکم کرنے میں مدد کے لئے ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فی الوقت جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ تنازعات سے بچنے اور بین الاقوامی قانون کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے قریبی تعاون کرنے کے علاو¿ہ کوئی دوسرا راستہ نہیں دیتے۔ جہاز رانی کی آزادی کے تحفظ کے لئے یورپی یونین کے رکن ممالک پہلے ہی یورپی یونین اور بحرہند و بحرالکاہل کے درمیان اپنی تعیناتیوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور دنیا کو اِس بات کا باور کروانے کی ضرورت ہے کہ خطے کے ممالک یورپی یونین پر قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔اقتصادی لحاظ سے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت نے یورپی یونین کے روسی گیس پر حد سے زیادہ انحصار کی بھاری قیمت ادا کی ہے لہٰذا یورپی یونین اس حد سے زیادہ انحصار کو کم کرکے یورپی یونین کی اقتصادی سلامتی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یورپی یونین اپنی سرحدیں بند کر دے گا۔ اس کے برعکس‘ بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے کے بہت سے ممالک کے ساتھ یورپی یونین کے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہئے تاکہ یورپی یونین کی معیشت کو لاحق خطرات سے بچا جاسکے اور یورپی یونین کی سپلائی چین کو متنوع بنایا جاسکے۔ اس تناظر میں یورپی یونین نے حال ہی میں نیوزی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط بھی کئے ہیں اور بھارت‘ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ یورپی یونین جاپان‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور اور بھارت کے ساتھ بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے شعبے میں مستحکم اور متنوع تعاون (سپلائی چین) یقینی بنانے کے لئے رابطے میں ہے اور ہم نے اپنے ہند بحرالکاہل شراکت داروں کو گرین اور ڈیجیٹل منتقلی کے لئے ضروری اہم خام مال کے حصول اور اُس کی پروسیسنگ کے لئے مل جل کر کام کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یورپی یونین سرسبز اور پائیدار مستقبل چاہتا ہے جس کے لئے بحر ہند و بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ زیادہ فعال تعاون سرفہرست ترجیح ہے۔ بحرالکاہل کے جزائر کے ساتھ گرین بلیو الائنس‘ آب و ہوا کی بہتری میں مدد دے رہے ہیں۔ اپنے جی سیون تنظیم کے رکن ممالک (شراکت داروں) کے ساتھ مل کر‘ یورپی یونین نے جنوبی افریقہ‘ انڈونیشیا اور ویت نام کے ساتھ توانائی کی منتقلی کے منصوبوں میں شراکت داری پر اتفاق کیا ہے اور یورپی سرمایہ کاری بینک پہلے ہی ویت نام کی ماحولیاتی بہتری کو تیز کرنے کے لئے پچاس کروڑ (پانچ سو ملین) یورو کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے لوگوں اور کرہ ارض دونوں کو فائدہ ہوگا۔(مضمون نگار یورپی یونین کی خارجہ امور اور سلامتی پالیسی کے اعلی نمائندے اور یورپی کمیشن کے نائب صدر ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔