موسمیاتی تبدیلیاں اور عالمی حقوق

انسان کے ہاتھوں انسان مشکل میں ہے اور کرہ¿ ارض پر انسانوں کی بقا ءخطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو جنوب میں واقع ہیں ‘ پاکستان بھی اِنہی میں شامل ہے موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہیں جبکہ اِن کے پاس آمدنی کے خاطرخواہ وسائل بھی نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کی مرتب کردہ انسانی ترقی کی رپورٹ ”دی نیکسٹ فرنٹیئر ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ اینتھروپوسین“ میں جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ پچاس برس میں‘ عالمی آب و ہوا اور موسم سے متعلق آفات میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال ”سی او پی 28“ نامی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ”دنیا آب و ہوا سے متعلق خاطرخواہ حساس نہیں اور اِسے درپیش خطرات کو محسوس کرنا چاہئے“موسمیاتی اور انسانی ساختہ آفات کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے دیگر خطرات کے عالمی میٹرکس میں پاکستان سرفہرست ہے اور ایک سو ترانوے ممالک کی فہرست میں سب سے زیادہ قدرتی آفات کا دوچار اُور خطرات رکھنے والے ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے اور اِس کا اثر سب سے زیادہ مالی طور پر کمزور ممالک میں برداشت کیا جا رہا ہے‘ جن میں پسماندہ برادریاں‘ خواتین‘ بچے‘ کسان‘ برفانی اور نشیبی ساحلی علاقوں میں رہنے والے لوگ شامل ہیں۔ یہ تجزیہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کو سال دوہزاربائیس میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ”سی او پی 28“ نامی عالمی اجلاس میں پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی امداد کے لئے عالمی فنڈ کے قیام اور اِس کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا جس کے لئے پاکستان نے ”سی او پی 27“ میں کامیابی کے ساتھ اپنا نکتہ¿¿ نظر پیش کیا تھا اور دنیا نے اُسے تسلیم بھی کیا تھا۔پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق قابل ستائش قومی پالیسی تشکیل دے رکھی ہے۔ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ (ایم او سی سی اینڈ ای سی) نے یو این ڈی پی کے تکنیکی و مالی تعاون سے قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی اور قومی طور پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کو اپناتے ہوئے کئی عالمی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ایم او سی سی اینڈ ای سی کا نیشنل ایڈی پٹیشن پلان شراکت داری اور فنانسنگ کے لئے مو¿ثر فریم ورک فراہم ہے‘ جس میں تخمینہ بھی شامل ہے کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے سرمایہ کاری پر سالانہ سات سے چودہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔جنوری دوہزارچوبیس کو اقوام متحدہ‘ پاکستان اور اس کے ترقیاتی شراکت داروں نے آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جو جنیوا میں منعقد ہوئی۔ پاکستان نے قومی ماحولیاتی تنوع کی بحالی اور تعمیر نو کے فریم ورک (فور آر ایف) پر عمل درآمد کے لئے دس ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی وعدے حاصل کئے۔ ایک سال بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف جمع کی گئی فنانسنگ کو عملاً فراہم کریں بلکہ پاکستان کی کارکردگی اور ماحولیاتی بہتری میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیں۔ اب تک پاکستان کو جنیوا وعدوں کا تقریباً ستر فیصد یعنی قریب سات ارب ڈالر مل چکے ہیں۔پاکستان جیسے کم متوسط آمدنی والے ممالک کے لئے‘ آب و ہوا کی تبدیلی اور پہلے سے موجود معاشی کمزوریوں کے درمیان تعلق ہے۔ آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی خطرات زراعت‘ بنیادی ڈھانچے‘ معاش‘ صحت عامہ کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں اور یہ سماجی و اقتصادی کمزوری میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس باہمی تعامل کو سمجھنا اور آب و ہوا سے متعلق قومی لائحہ عمل (فریم ورک) اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس میں پاکستان کو درپیش قرضوں کے بھاری بوجھ سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنا‘ ماحول دوست اور پائیدار تعمیر و ترقی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے عالمی حکمت عملیوں پر عمل درآمد مرکزی حیثیت و اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے لئے یہ ’یو این ڈی پی‘ کے پانچ سالہ کنٹری پروگرام کا ایک بنیادی ستون بھی ہے‘ جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلی بلکہ گورننس‘ اقتصادی ترقی اور جدت کے شعبوں سے بھی متعلق ہے۔ پاکستان کو ادارہ جاتی لچک دار پالیسی کی ضرورت ہے جو اس خیال پر مبنی ہو کہ افراد اور برادریوں کو ترقیاتی اسٹیک ہولڈرز‘ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی حمایت حاصل ہو اور چونکہ کسی ملک کے ادارے قدرتی آفت میں سب سے پہلے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔(بشکریہ دی ٹربیون۔ تحریر ڈاکٹر سموئیل ‘ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 لہٰذا صوبائی حکومتوں اور ان کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کی صلاحیت و استعداد میں اضافہ یقینی بنانے کے لئے خاطرخواہ مالی و افرادی وسائل کو فوری طور پر وقف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال جنیوا پلیجنگ کانفرنس میں یو این ڈی پی کے ایڈمنسٹریٹر اخیم سٹینر نے کہا تھا کہ ”پاکستان کا موسمیاتی ردعمل کا اگلا مرحلہ پوری دنیا کے لئے مثال ہے کیونکہ پاکستان نے انتہائی سنجیدگی اور توجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی بہتری کے لئے کام کیا ہے“ فروری دوہزارچوبیس میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر نئی حکومت کے پاس موقع ہو گا کہ وہ ماحولیاتی بہتری کے عالمی و قومی وعدوں کو عملی جامہ پہنائے جو نہ صرف کسی آفت سے نمٹنے کے لئے قلیل اور طویل مدتی ردعمل کے طور پر اہم ہیں بلکہ یہ ایک ایسے فریم ورک کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جس سے قدرتی آفات کے حوالے سے پاکستان کو مستقبل میں بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔