پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز (پی آئی اے) جیسی کمپنی دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی کوئی کمپنی نہیں ملے گی جس کے 830 ارب روپے کے واجبات ہوں جبکہ اُس کے اثاثے 171 ارب روپے کے ہوں۔ عالمی سطح پر کسی بھی دوسری ائر لائن کی ذمہ داریوں اور اثاثوں کے درمیان اتنا بڑا فرق نہیں ہے۔ اگر یہ مالیاتی ذمہ داریاں پاکستان کے ساڑھے تین کروڑ خاندانوں پر مساوی طور پر تقسیم کی جائیں تو اس سے ہر خاندان پر ’چوبیس ہزار روپے‘ کا بوجھ پڑے گا۔پی آئی اے جیسی کمپنی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ عالمی ایوی ایشن سیکٹر میں پی آئی اے کی پروفائل واضح طور پر منفرد ہے‘ یہ دو درجن سے کم طیاروں کے ساتھ کام کر رہی ہے اور اِس میں 434 پائلٹوں کو ملازمت دی گئی ہے۔ پی آئی اے میں فی طیارہ پانچ سو ملازمین ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایمریٹس‘ اتحاد اور قطر ائرویز جیسی بڑی ائرلائنز کے ملازمین اور طیاروں کا تناسب کافی کم ہے‘ امارات 231‘ اتحاد 211 جبکہ قطر ائر ویز 190ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ہمارے پاس چودہ وزیر اعظم رہے جن میں بینظیر بھٹو‘ معراج خالد‘ نواز شریف‘ میر ظفر اللہ خان جمالی‘ چودھری شجاعت حسین‘ شوکت عزیز‘ میاں سومرو‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ میر ہزار خان کھوسو‘ نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی‘ ناصر الملک اور عمران خان شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قومی قیادت میں ہوئی اِن تبدیلیوں کے دوران کیا ’پی آئی اے‘ کے ادارہ کی اصلاح کبھی بھی اور کسی بھی دور حکومت میں مرکزی ترجیح رہی؟ ’پی آئی اے‘ کے مسائل سب کو معلوم ہیں لیکن اِن مسائل اور خسارے کی وجوہات کو حل نہیں کیا گیا اور بات اِس انتہا تک جا پہنچی ہے کہ اب پی آئی اے 830 ارب روپے کا مقروض ہو ہے! صرف پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن ہی نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے سرکاری ادارے (جنہیں ایس او ایز کہا جاتا ہے) خسارے میں چل رہے ہیں اور یہ بات وقتاً فوقتاً قومی بحث کا مرکز بھی ہے۔ ہمیشہ نجکاری کو مستقل حل اور بطور علاج پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت معاشی اصلاحات کا عزم کئے ہوئے ہے اور ایسا بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اِسی طرح پاکستان کے امریکی ڈالر پر مبنی یورو بانڈز اور سکوکس میں حالیہ ہفتوں کے دوران تیزی دیکھی گئی ہے‘ جس سے وہ دنیا کے صف اول کے بانڈز میں شامل ہو گئے ہیں۔ مزید برآں ملک کی بڑی کمپنیوں کی کارکردگی کی عکاسی کرنے والا بینچ مارک ”کے ایس ای 100انڈیکس بھی ریکارڈ سطح پر بند ہوا ہے تاہم واضح ’سگنلنگ‘ کی اہمیت پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا۔ سرمایہ کار اور کاروباری ادارے اپنے سرمایہ کاری کے فیصلوں کے لئے حکومتوں کے ’سگنلز‘ پر انحصار کر رہے ہیں۔ پی آئی اے کی کامیاب نجکاری تین اہم نکات کی عکاسی کرتے ہوئے ایک طاقتور ’سگنل‘ کے طور پر کام کرے گی۔ سب سے پہلے‘ یہ اصلاحات کے لئے حکومت کے عزم کو اجاگر کرے گا اور پھر سنگین معاشی مسائل حل کرنے کے لئے اس کے عزم کو ظاہر کرے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریاستی کنٹرول سے ہٹ کر زیادہ مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی بھی ہوگی جو ممکنہ طور پر مزید نئی سرمایہ کاری اور مہارت لانے کا موجب ہوگا۔ یقینی طور پر‘ کامیاب نجکاری کے لئے محتاط منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح خریدار کا انتخاب‘ شفافیت یقینی بنانا اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ ایسے مراحل ہیں جن پر زیادہ غور و فکر ہونا چاہئے تاہم اگر یہ مراحل بطور اہداف حاصل کر لئے گئے تو اِس کے ممکنہ انعامات بھی قومی معیشت کی بہتری کے لئے بہت اہم ثابت ہوں گے۔ فوری معاشی فوائد کے علاؤہ پی آئی اے کی کامیاب نجکاری ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس سے اصلاحات اور قومی ترقی کا واضح ’سگنل‘ جائے گا جس سے زیادہ مثبت معاشی ماحول کو فروغ ملے گا اور تمام پاکستانیوں کو فائدہ ہوگا۔ پی آئی اے کی نجکاری صرف مالی فوائد کے بارے میں نہیں ہوگی۔ یہ مشکل مسائل کا مقابلہ کرنے اور ایک نئے نقطہ نظر کو اپنانے کے لئے حکومت کی آمادگی کا واضح مظاہرہ ہوگا۔ کیا ایس آئی ایف سی اس سب میں پس پردہ کردار ادا کر رہی ہے؟