بھارت میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں اٹھارہویں لوک سبھا کے 543 ارکان کے انتخاب کےلئے 19 اپریل 2024ءسے یکم جون 2024ءتک عام انتخابات ہوں گے جیسا کہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کچھ سیاست دانوں نے وضاحت کی ہے کہ ’بی جے پی‘ مشن ٹیک اوور پر ہے اور توقع ہے کہ چارسو سے زیادہ نشستیں جیت کر آئین میں ترمیم کرنے کا آئینی اختیار رکھتی ہے بھارت کی سیاست اور انتخابات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال حراست میں ہیں تین میں سے دو الیکشن کمشنروں کا انتخاب وزیر اعظم نریندر مودی کی ترجیح کی بنیاد پر کیا گیا ہے جبکہ الیکٹورل بانڈز سے متعلق تنازعہ بھی موجود ہے جسے تاریخ کے سب سے بڑے تنازعات (گھوٹالوں) میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور پراسرار طور پر اِس کی میڈیا کوریج بھی نہیں ہو رہی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے بینک کھاتوں کو منجمد کر دیا گیا ہے حزب اختلاف کی جماعتیں انتخابی مہم چلانے کے قابل نہیں ہیں‘ سال دوہزارچوبیس کے انتخابات سے ٹھیک پہلے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے اپوزیشن جماعتوں پر بڑے جرمانے عائد کئے ہیں‘ پورے بھارت میں حزب اختلاف کے اُمیدواروں کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) (نیب جیسا ادارہ) اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ دونوں سے نوٹسز مل رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں اشتہارات شائع نہیں کر سکتیں مودی حکومت اپنے خلاف ہر آواز کو دبانے کے لئے غداری اور ہتک عزت جیسے قوانین کا استعمال کر رہی ہے اور اِس پوری مہم میں کانگریس کے علاو¿ہ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) ہدف ہے۔ آزادی کے بعد بھارتی تاریخ میں پہلی بار‘ اقتدار میں رہتے ہوئے کسی وزیر اعلیٰ کو بغیر کسی سزا کے گرفتار کیا گیا ہے‘اس سے قبل دہلی کے وزیر تعلیم منیش سسودیا‘ دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین اور عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو گرفتار کیا گیا اور وہ سبھی اب بھی جیل میں ہیں۔ سسودیا ایک سال سے زیادہ عرصے سے حراست میں ہیں اور جین پچھلے دو سالوں سے جیل میں ہیں لیکن یہ سبھی لیڈر جیل میں کیوں ہیں اور ضمانت پر کیوں نہیں؟ سال دوہزاراٹھارہ میں مودی نے ضمانت کی شرائط کو تبدیل کرتے ہوئے ترمیم کی اور ضمانت کے معاملات میں بے گناہی کے مفروضے کو الٹ دیا۔کجریوال کو چار لوگوں کے بیانات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ایک امیر تاجر سرتھ چندر ریڈی تھے۔ انہیں ای ڈی نے طلب کیا اور گرفتار کر لیا لیکن ان کی گرفتاری کے پانچ دن بعد ان کی کمپنی اربندو فارما نے الیکٹورل بانڈ کے ذریعے بی جے پی کو پانچ کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ اس کے بعد ای ڈی نے انہیں ضمانت دے دی اور وہ اس معاملے میں سرکاری گواہ بن گئے۔ اس کے بعد ان کی کمپنی نے بی جے پی کو ایک اور عطیہ دیا۔ حزب اختلاف کو خاموش کرنے کا منصوبہ سیدھا سادہ ہے۔ اکاو¿نٹس منجمد کرکے اور رہنماو¿ں کو گرفتار کرکے میڈیا سمیت تمام اداروں پر قبضہ کریں اور پارٹیوں کو توڑ دیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال راہول گاندھی کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کے لقب کو بدنام کرنے کے الزام میں ہتک عزت کا عجیب مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے مختلف راستہ اختیار کیا اور کانگریس کے بینک کھاتوں کو منجمد کردیا۔ محکمہ¿ انکم ٹیکس نے دعویٰ کیا کہ کانگریس نے ڈیڈ لائن سے پہلے اپنے ریٹرنز بروقت داخل نہیں کئے۔ اس لئے کانگریس کے خلاف اکتیس سالہ پرانا مقدمہ بھی زیر التوا ہے اور محکمہ انکم ٹیکس پہلے ہی کانگریس پارٹی کو سترہ ارب روپے کا نوٹس جاری کر چکا ہے۔ یہاں جس ادارہ جاتی قبضے کا ذکر ہو رہا ہے اس میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے تین ارکان ہیں۔ نو مارچ دوہزارچوبیس کو الیکشن کمشنر ارون گوئل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کے دباو¿ میں استعفیٰ دیا۔ الیکشن کمشنر کا تیسرا عہدہ پہلے ہی خالی ہے۔ الیکشن کمشنر کی تقرری تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی ہے جس میں وزیر اعظم‘ قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ہوتے ہیں لیکن کچھ مہینے پہلے ہی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرایا اور چیف جسٹس کو الیکشن کمشنر کی تقرری کرنے والی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بجائے اس میں حکومت کا ایک مرکزی وزیر‘ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف شامل ہوں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر علی طاہر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس سے حکومت کو دو تہائی اکثریت ملی اور اس کے مطابق دو نئے الیکشن کمشنروں کا تقرر کیا گیا۔ اس کے باوجود قائد حزب اختلاف نے دعویٰ کیا کہ انہیں اجلاس سے ایک رات پہلے 212 ناموں کی اور اجلاس سے ٹھیک پہلے انہیں چھ ناموں کی مختصر فہرست دی گئی۔بھارت کے ”مشن ٹیک اوور“ میں عدالتیں بھی شامل ہیں۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں ہائی کورٹ کا کوئی جج اپنی مدت ملازمت سے پہلے استعفیٰ دے کر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے گا لیکن کلکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھی جیت گنگوپادھیائے نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور باضابطہ طور پر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ ”مشن ٹیک اوور“ میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ اس پر قابو پانا مودی حکومت کے لئے ایک بڑا درد بن گیا ہے۔ براڈکاسٹنگ سروسز ریگولیشن بل 2023ء(ابھی تک ایک ایکٹ نہیں بنا) کے تحت‘ حکومت سوشل میڈیا پر تنقید بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صرف وقت ہی بتائے گا کہ کیا بی جے پی اپنے اِس مشن میں کامیاب ہوگی اور بھارت کو آمریت میں تبدیل کرے گی۔ انتخابات سے قبل دھاندلی زوروں پر ہے اور کوئی بھی ادارہ اتنا طاقتور نظر نہیں آ رہا جو ”مشن ٹیک اوور“ کو روک سکے۔