اب سے تقریباً ایک دہائی بعد دنیا کیسی نظر آئے گی؟ یہ دیکھتے ہوئے کہ جغرافیائی سیاست‘ جغرافیائی معاشیات اور ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں‘ دنیا کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیر یقینی سے دوچار دکھائی دے رہا ہے تاہم‘ ایسے رجحانات بھی موجود ہیں جو ہمیں آنے والے دنوں میں عالمی جغرافیائی سیاست کی سمت کے بارے میں اشارتاً آگاہ کر رہے ہیں۔ دنیا ایک عالمی نظام سے بدنظمی کی طرف جا رہی ہے۔ بڑی طاقتوں کی دشمنی ہر دن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر رہی ہے‘ عالمی سطح پر ممالک کے فوجی (دفاعی) اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں‘ یکطرفہ سوچ عروج پر ہے جبکہ کثیر الجہتی سوچ زوال پذیر ہے اور یہ بات اپنی جگہ تشویش کا باعث ہے کہ غیر ملکیوں سے نفرت تقریباً ہر ملک میں سرایت کر رہی ہے۔عالمی منظر نامے میں ایک دوسرے سے مسابقت لے جانے کی کوشش میں چار عوامل انتشار کا باعث ہیں: انڈو پیسیفک (امریکہ و چین کے درمیان مسابقت)‘ یورپ (روس اور یوکرین جنگ)‘ مشرق وسطی (فلسطین تنازعہ‘ اسرائیل و ایران کشیدگی) اور بحر ہند جہاں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا‘ چین اور بھارت سمیت بڑی طاقتیں اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ امریکی بحری حکمت عملی کے ماہر الفریڈ ماہان نے اُنیسویں صدی میں پیش گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی کا مستقبل اس بات پر منحصر ہوگا کہ بحر ہند پر کس کا غلبہ ہے۔ موجودہ منظرنامے میں بدلتے ہوئے عالمی اتحاد تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر تین وسیع زمروں کے ساتھ امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا کی روس‘ چین اور ایران کے خلاف غیر رسمی صف بندی ہے۔ بھارت‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ پاکستان اور دیگر درمیانی طاقتوں جیسے کچھ ممالک کے لئے ترجیحی آپشنز اسٹریٹجک خودمختاری ہے۔ ان دو کثیرالجہتی زمروں میں مشترکہ مفادات کے حصول کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ جیسا کہ ہمیں برکس (برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ) کی صورت دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس میں ایران اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کواڈ پلیٹ فارم جو امریکہ‘ آسٹریلیا‘ بھارت اور جاپان نے چین کو روکنے کے لئے بنایا ہے۔ اِسی طرح ’آئی ٹو یو ٹو‘ کے پلیٹ فارم سے اقتصادی تعاون کے لئے بھارت‘ اسرائیل‘ امریکہ اور متحدہ عرب امارات اکٹھا ہوئے ہیں لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے فی الحال اِس پر پیشرفت رک گئی ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سمیت چھ اقتصادی راہداریوں میں ایک سو سے زائد ممالک ایک دوسرے سے تعاون بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ بدلتے ہوئے عالمی اتحاد چھ کراس کٹنگ رجحانات سے متاثر ہوں گے: 1: ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز‘ جیسا کہ اے آئی پلیٹ فارمز‘ ملٹی رول ڈرونز‘ بگ ڈیٹا اور سیمی کنڈکٹرز۔ جو فی الوقت امریکہ‘ چین ٹیک جنگ کا مرکز ہیں۔ 2: آب و ہوا کی تبدیلی‘ جو انتہائی شدید موسم اور غذائی عدم تحفظ کی صورت کم آمدنی والے ممالک کے لئے تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ 3: ڈالرائزیشن کا کم ہونا ایک ایسا آپشن جس پر بہت سے ممالک نے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ 4: قدرتی وسائل (نایاب عناصر) پر زیادہ سے زیادہ قبضہ‘ جو سمارٹ فونز‘ ڈیجیٹل کیمروں‘ سیمی کنڈکٹرز وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں اور ایسی ٹیکنالوجیز کو آگے بڑھانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اِن قدرتی وسائل پر دسترس کے لئے چین اور امریکہ کے علاو¿ہ یورپ اور جاپان کے درمیان بھی مسابقت پائی جاتی ہے۔ 5: غیر روایتی سیکورٹی خطرات موجود ہیں جن میں توانائی کی سیاست‘ سائبر وار فیئر‘ غلط معلومات اور اِس سے نمٹنے کی قانون سازی شامل ہے۔ 6: دہشت گردی میں اضافہ اُور دہشت گردی روکنے کے لئے عالمی تعاون میں کمی۔ عالمی تنازعات کی روشنی میں بدلتے ہوئے اتحاد آنے والی دہائی میں دنیا کی تشکیل کر رہے ہیں۔ اِن میں چھ رجحانات قابل ذکر ہیںجو بحیرہ جنوبی چین‘ یوکرین‘ مشرق وسطیٰ‘ افغانستان اور کشمیر سمیت ممکنہ عالمی تنازعات کے ہائی رسک علاقوں میں ظاہر ہوں گے۔ تنازعات کی ممکنہ نوعیت ہائبرڈ ہوگی‘ جس میں ممالک اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قومی طاقت کے ہر ذریعے کو استعمال کریں گے‘ جن میں فوجی حملے‘ پراکسیز کا استعمال‘ معاشی آلات (پابندیاں‘ منافع بخش امدادی پیکجز‘ بین الاقوامی مالیاتی نظام کے ذریعے جبر) اور انفارمیشن ٹولز (پروپیگنڈا‘ میڈیا‘ تفریحی صنعت) شامل ہیں۔ امریکہ ایک کمزور ہوتی ہوئی عالمی طاقت ہے لیکن اس کی قومی طاقت برقرار ہے اور ایک اہم سپر پاور کی حیثیت سے اگلی دہائی تک یہ عالمی طاقت برقرار رہے گی۔ یہ ہائی ٹیک انڈسٹری اور مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چین کا مقابلہ کر رہا ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں چین ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور مکمل طور پر صنعتی ملک بننے کےلئے اپنے پرامن عروج کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ (مضمون نگار سابق سیکرٹری خارجہ اور سنبر انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے چیئرمین ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر اعزاز چوہدری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اِسی طرح روس اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن امکان ہے کہ اس کی توانائیاں یورپ سے جنگ کی صورت تنازعے میں ضائع ہو جائیں گی۔ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے حالانکہ یہ جغرافیائی سیاسی پروفائل نظریاتی سیاست‘ شمال و جنوب کی تقسیم‘ شورش زدہ اقلیتوں اور مشتعل کسانوں کی وجہ سے داخلی محاذ پر مشکلات کا شکار ہے۔ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ امن و سلامتی کے معاملات نظر انداز کرتا رہے گا لیکن پائیدار ترقی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے اِس کا وجود اہم رہے گا۔ او آئی سی سے مستقبل کو کسی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کا امکان نہیں۔ آسیان علاقائی انضمام کی کامیابی کے لئے کوششیں جاری رکھے گا۔ براعظم یورپ کی بجائے آنے والی دہائی میں عالمی توجہ کا مرکز براعظم ایشیا رہے گا۔سال 2035ءکی دنیا آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ منقسم اور پولرائزڈ دکھائی دے رہی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ صرف مضبوط و پائیدار معیشت اور معاشرتی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک ہی اِس عالمی تبدیلی کی طاقتور ہواو¿ں کا مقابلہ کر سکیں گے۔