طرز حکمرانی: بین الاقوامی بحث


طرز حکمرانی (گورننس) کے بارے میں عالمی سطح پر جاری بحث کا عنوان ہے کہ ”اچھی حکمرانی کسے کہتے ہیں اور یہ قوموں کی قسمت کا تعین کرنے میں کس حد تک مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟“ یہ خاصا سنجیدہ موضوع ہے جس میں یہ تصور خود ساختہ اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ مؤثر حکمرانی اور اہلیت کی حامل قیادت ہی کامیاب اور ناکام ممالک کے درمیان فرق ہے جبکہ معاشی ترقی درحقیقت اچھی حکمرانی پر منحصر ہے اور اس کا تعلق حکومتی اداروں کی کارکردگی کے معیار‘ عوامی ضروریات کے تئیں ان کے ردعمل اور ان پر عوام کے اعتماد سے بھی ہوتا ہے۔آج کی پیچیدہ دنیا میں‘ گورننس کے چیلنجز زیادہ مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز نے اِس چیلنج کو بڑھا دیا ہے۔ ٹیکنالوجی نے عوام کو کسی حد تک بااختیار بنایا ہے اور ان کی توقعات میں بھی اضافہ کیا ہے کہ وہ حکومتوں سے کیا چاہتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں گورننس پر بین الاقوامی بحث نے ادب کا ایک بڑا ذخیرہ بھی تیار کیا ہے۔ کورونا وباء کے دوران‘ یہ گفتگو شدت اختیار کر گئی جب اس بات (پہلو) کا جائزہ لیا گیا کہ کون کون سے ممالک نے صحت کے بحران کو بہتر طریقے سے سنبھالا اور کیا جمہوریتوں نے آمرانہ نظاموں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر طریقے سے کام کیا؟ مصنف ’فرید ذکریا‘ نے اپنی کتاب ’ٹین لیسنز فار دی پوسٹ پینڈیمک ورلڈ‘ میں دلیل دی ہے کہ اگرچہ جمہوری ممالک کا ریکارڈ غیرجمہوری ممالک کے مقابلے بہتر رہا لیکن یہ ایک قابل اور قابل اعتماد ریاست اور حکمرانی کے درمیان فرق کو بھی واضح کر رہی ہے اور اِس کا وبائی مرض سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں اہم کردار رہا ہے۔ اسی طرح‘ سیاسی امور کے امریکی ماہر (سائنسدان) فرانسس فوکویاما نے اپنے مقالے میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ سیاسی نظام کی بجائے اہلیت پر مبنی طرزحکمرانی کسی ریاست کے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔ سال 2020ء میں شائع ہونے والے مذکورہ مقالے میں انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ کسی بحران سے متعلق مؤثر ردعمل میں اہم اور فیصلہ کن کردار ریاست کی صلاحیت کا ہوتا ہے اور ایک ایسی ریاست یہ ہدف حاصل کرتی ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو۔ آخر میں جس چیز کو اہم قرار دیا وہ یہ ہے کہ حکومت وہ ہوتی ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو۔ گورننس کو از سر نو سمجھنے کے لئے پاکستان کو جاری عالمی بحث سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ کورونا وبا ء کے بعد غیر مستحکم دور میں دنیا بھر کے ممالک کو بے مثال چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے عالمی بینک نے گورننس کے تصور کا ازسرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔ ورلڈ بینک کی ”فیوچر آف گورنمنٹ رپورٹ (2022ء) میں گورننس کے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بہتر طرز حکمرانی کی بڑھتی ہوئی طلب‘ معاشی مشکلات اور بداعتمادی کے ساتھ مختلف بحرانوں اور دائمی ناکامیوں کے تسلسل کی نشاندہی بھی کی گئی۔ رپورٹ میں ایک نئے سماجی معاہدے کا مطالبہ کیا گیا جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ جدید‘ قابل اعتماد اور بحرانوں سے نمٹنے کے لئے تیار حکومت خود کو عوام کے سامنے جوابدہ تصور کرے۔ گزشتہ برسوں کے دوران عالمی بینک نے ممالک کی گورننس کے معیار کا جائزہ لینے اور اس کی پیمائش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کے ذریعے گورننس سے متعلق عالمی بحث کو بھی آگے بڑھایا گیا ہے۔ ورلڈ بینک کے عالمی گورننس انڈیکیٹرز (اعداد و شمار کے مجموعے) دلیل ہیں کہ دو سو سے زیادہ ممالک اور خطوں میں گورننس کا معیار اور تصورات پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ طرز حکمرانی کے چھ پہلو وضع کئے گئے ہیں۔ احتساب‘ سیاسی استحکام‘ امن و امان‘ انسداد دہشت گردی‘ حکومت کی قابلیت‘ ریگولیٹری معیار‘ قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی پر قابو پانا۔ ان جہتوں کے جائزے پر مبنی عالمی درجہ بندی میں سنگاپور‘ فن لینڈ‘ ناروے اور ڈنمارک سال دوہزاربائیس کی درجہ بندی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل تھے۔ مغربی اور مشرقی سیاسی نظاموں میں یکساں اصلاحات کی ضرورت ہے اور انہیں یکساں چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ مغرب کے زیادہ تر حصوں میں پولرائزیشن‘ زوال اور نظریاتی سختی حکمرانی کے نظام کو متاثر کر رہی ہے۔ درحقیقت مضبوط مشاورتی اداروں کے بغیر عوامی بھلائی کا حصول ممکن نہیں۔ گڈ گورننس کے کئی بنیادی اصولوں کا اطلاق کسی ایک ملک پر نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے لئے جامع طرزعمل کی ضرورت ہے اور اِس کے لئے عوامی مفاد میں پالیسی کی تشکیل اور نفاذ کے ذریعے اہلیت اور احتساب کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک ان اصولوں کو اپنے ہاں لاگو نہیں کیا لیکن بہتر طرز حکمرانی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔  (مضمون نگار برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)