دنیاوی معاملات عالمی طاقتوں کے مابین ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششوں سے طے ہوتے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دشمنی تھی۔ موجودہ دور میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ ہے جس کا دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے ساتھ مقابلہ جاری ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے خلاف دو رخی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے جسے ”تعمیری مسابقت“ کا نام دیا گیا ہے۔ اعلیٰ حکومتی سطح پر بیجنگ کے ساتھ بات چیت جبکہ چینی کمپنیوں کی سیمی کنڈکٹر جیسی اہم ٹیکنالوجیز تک رسائی کا گلا گھونٹنا یا انہیں سزا دینا امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین کے چین کے حالیہ دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران یلین نے دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے اہم پیشرفت قرار دیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ واشنگٹن بیجنگ سے الگ ہونے کا خواہاں نہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے چینی معیشت کے ”بڑھتے ہوئے منفی اثرات“ کے بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا جس سے امریکہ کے کاروباری اداروں اور کارکنوں کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر چینی حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ چین میں کاروبار حد سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس کی وجہ سے چینی کاروباری ادارے سستی مصنوعات تیار کر رہے ہیں اور انہیں امریکہ اور دیگر غیر ملکی مارکیٹوں میں فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی تین عوامل پر مشتمل ہے ”تجارت‘ اعلیٰ ٹیکنالوجی اور جغرافیائی سیاست“۔ دونوں اقتصادی طاقتوں کے درمیان تجارتی تناؤ کی جڑیں‘ حقائق اور تصورات الگ الگ ہیں۔ امریکہ داخلی طور پر تجارتی خسارے پر چل رہا ہے‘ جو 2023ء میں ایک کھرب ڈالر سے زیادہ تھا جبکہ چین کی معیشت مسلسل فائدے (تجارتی سرپلس) میں ہے‘ 2023ء میں امریکہ اور چین کی باہمی تجارت 575 ارب ڈالر تھی جس میں چین کیلئے امریکی برآمدات کا حصہ 178 ارب ڈالر جبکہ چین سے امریکہ برآمدات 427 ارب ڈالر تھیں جس کے نتیجے میں امریکہ جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے کے لئے 279 ارب ڈالر کا تجارتی عدم توازن پیدا ہوا۔ امریکہ کی نظر میں چین کو حاصل برتری سرکاری اداروں کی سرپرستی اور کرنسی ”ہیرا پھیری“ کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے چین کی برآمدات سستی ہو جاتی ہیں۔ الزام ہے کہ سستی برآمدات امریکی مارکیٹ میں قیمتیں کم کرتی ہیں اور اس وجہ سے مقامی کاروباری اداروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ سال بہ سال امریکہ کو ہونے والے تجارتی خسارے سے امریکہ جیسی بڑی معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ تجارتی عدم توازن کم کرنے کے مقصد سے‘ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور (سال دوہزاراٹھارہ) میں بڑی تعداد میں چینی مصنوعات پر درآمدی محصولات عائد کئے گئے‘ جس پر بیجنگ نے فوری جوابی کاروائی کی۔ اس اقدام کے پیچھے ایک اور مقصد چین میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں کو مصنوعات برآمد کرنے کی لاگت میں اضافہ کرکے اپنے آبائی ملک میں واپس لانا بھی تھا تاہم ان تادیبی محصولات میں وقت کے ساتھ کمی کی گئی۔ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا اور مکمل مینوفیکچرنگ سیکٹر ہے جبکہ امریکہ کی بنیادی صلاحیت اعلیٰ درجے کی خدمات میں ہے۔ مینوفیکچرنگ کے عالمی شعبے میں چین کی معیشت کا حصہ 27 فیصد ہے جبکہ امریکی حصہ صرف 11 فیصد ہے۔ پیش گوئی کی گئی ہے کہ‘ موجودہ شرح نمو کے لحاظ سے‘ چین اس دہائی کے اختتام تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ تجارتی جنگ کے معاشی اور سیاسی دونوں پہلو ہوتے ہیں‘ بڑے پیمانے پر تجارتی خسارے کا سامنا کرنے والا ممالک تجارتی جنگ میں کود پڑتے ہیں۔ چین کی طاقت کا راز اس کی معیشت ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اپنی برآمدات میں اضافے کی کامیاب کوشش کی ہے جس سے اس کی معیشت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ چین نے سال 2049ء تک ’ترقی یافتہ معیشت‘ بننے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جبکہ امریکہ چینی کاروباری اداروں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان اسٹرٹیجک رقابت آنے والے برسوں میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)