بھارت افغانستان گٹھ جوڑ


 بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے علاقائی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان بھارت کے مذموم عزائم کا مرکزی ہدف ہے۔ بھارت جارحانہ انداز میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور پاکستان کی غیر محفوظ سرحدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقسیم اور عدم استحکام کا بیج بو رہا ہے۔ بھارت اِس مقصد کے لئے افغانستان کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اگرچہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن افغانستان کی سرحدیں بھارت کو اپنے عدم استحکام کے مقصد کو آگے بڑھانے کا ذریعہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ مذموم حکمت عملی نہ صرف خطے میں امن کو خطرے سے دوچار کئے ہوئے ہے بلکہ بھارت کی جانب سے بین الاقوامی اصولوں اور خودمختاری اِس کی سرحدوں کے تقدس کو نظر انداز کرنے کی بھی نشاندہی کرتی ہے لہٰذا پورے علاقے کی سلامتی اور خوشحالی کے تحفظ کے لئے سرحد پار دہشت گردی کی بنیادی وجوہات پر قابو پانا ضروری ہے۔پاکستان بیس برس سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورکس کو مؤثر طریقے سے ختم کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کامیابی کے بعد دہشت گرد حملوں میں اضافہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ خطرہ موجود ہے۔ ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوششوں اور صلاحیت میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات افغانستان کی جانب سے خیر سگالی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ کابل میں حکومت سے قطع نظر پاکستان مخالف جذبات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے بھارت کی مدد سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں متعدد قوم پرست تحریکوں کا تعلق افغانستان سے ہو سکتا ہے۔ اویناش پالیوال کی کتاب ”مائی انیمز انیمز (میرے دشمن کا دشمن)“ میں بھارت کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے لئے استعمال کرنے کے بارے میں بصیرت افروز تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور حکومت میں بھارتی خفیہ ایجنسی را‘ جس کے مبینہ طور پر 34 افغان گورنروں سے تعلقات تھے‘ نے افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف خوب استعمال کیا۔ اِس سلسلے میں دو انکشافات انتہائی پیچیدہ جغرافیائی سیاسی عمل کو اجاگر کرتے ہیں جنہوں نے خطے کے دو ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر کیا۔ راجستھان‘ بھارت میں اکیسویں آپریشنل تنصیبات اور افغانستان میں کام کرنے والے 66 تربیتی مراکز کے ساتھ‘ این ڈی ایس (را) کی توسیع کے طور پر کام کرتا تھا۔ ان کاروائیوں کا بنیادی ہدف خیبر پختونخوا اور بلوچستان تھے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے وابستہ تنظیمیں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں اب بھی سرگرم ہیں جبکہ بلوچ علیحدگی پسند قوتوں نے اپنی توانائیاں کراچی اور جنوبی بلوچستان پر مرکوز کر رکھی ہیں۔سال دوہزاراٹھارہ میں براس نامی ایک ایسی تنظیم وجود میں آئی جس نے کئی بلوچ دہشت گرد تنظیموں کو یکجا کیا۔ پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا ’براس‘ کا بنیادی مقصد تھا‘ خاص طور پر گوادر اور کراچی میں‘ جہاں سے بھارت کے حاضر سروس فوجی کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ٹی ٹی پی اور براس نے مل کر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کو تیز کر دیا۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں اور دیگر عسکریت پسند دہشت گرد تنظیموں کی بھارت کی مالی پشت پناہی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے سے متعلق دنیا کو ناقابل تردید ثبوت فراہم کر رکھے ہیں اور پاکستان کے اِس دعوے کو ’را‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے مزید تقویت ملتی ہے‘ جسے بلوچستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹی ٹی پی‘ داعش اور بی ایل اے کے دہشت گرد افغانستان سے باہر کام کرتے ہیں اور پاکستان دشمن کے طور پر کام کرتے ہیں‘ جو کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناپاک کاروائیوں میں ملوث ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ریاست مخالف کاروائیاں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہمارے دشمنوں کی طرف سے اسپانسر کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے دہشت گرد حملے افغانستان سے منصوبہ بندی کے تحت کئے جاتے ہیں یعنی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔سابق امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لئے افغانستان کو استعمال کرتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اُم ایمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

پاکستان پرامید تھا کہ افغان طالبان کے حکمراں جماعت کی حیثیت سے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ دہشت گرد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال میں افغان طالبان نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسایہ ممالک چین‘ روس اور عالمی برادری کے لئے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ اور مالی اعانت فراہم کر رہے ہیں بلکہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کئے ہوئے ہیں۔دیگر دہشت گرد گروہوں کو تفویض کردہ مانیٹرنگ کمیٹی کی 33ویں رپورٹ‘ جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تھا‘ میں افغان سرزمین پر متعدد دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے۔ پاکستان کے دیرینہ خدشات کی مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں تصدیق ہوتی ہے اور یہ علاقائی اور بین الاقوامی جماعتوں کے لئے بھی انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ معلوم اور غیرمعلوم دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف کاروائیوں کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ذرائع سے امداد مل رہی ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان مذموم گٹھ جوڑ ختم کرنا ضروری ہے جو خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ دوحہ معاہدے کی شرائط کے تحت اپنی عالمی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ افغانستان کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ بھارت دنیا کے لئے ایک منافع بخش مارکیٹ (منڈی) ہے لیکن عالمی برادری کو دہشت گردی کی مالی معاونت میں بھارت کے ملوث ہونے کو نظر انداز بھی نہیں کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملک کے طور پر بھارت کی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ دنیا اس کی مذمت کرے اور علاقائی سلامتی اور امن پر اس کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لئے مربوط اقدامات کرے۔