پاکستان کی قومی ائر لائن (پی آئی اے) کی خریداری میں سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور فیصلہ ساز ’پی آئی اے‘ کی فروخت پر غور کر رہے ہیں لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ممالک کی قومی ائرلائنز کو اصل میں ’پی آئی اے‘ ہی نے قائم کیا تھا اور انہیں پروان بھی چڑھایا لیکن ’پی آئی اے‘ وقت کے ساتھ خاطرخواہ ترقی نہ کر سکی اور قومی خزانے پر بوجھ بن گئی۔ حیرت انگیز و دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب حکومت نے حالیہ چند برسوں کے دوران سیاحت کے شعبے کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس نے نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے صرف ایک سال (دو ہزار تیئس) کے دوران چھیاسٹھ ارب ڈالر آمدنی حاصل کی۔ اس کے برعکس پاکستان نے اسی سال (دو ہزار تیئس) میں صرف 1.3 ارب ڈالر سیاحت سے کمائے جبکہ پاکستان کے پاس دنیا کی دس بلند ترین چوٹیوں میں سے دو موجود ہیں اور سیاحت کے دیگر مقامات غیرملکی اور ملکی سیاحوں کے لئے اضافی کشش رکھتے ہیں۔ برف سے ڈھکی چوٹیوں سے لے کر دلکش وادیوں تک پاکستان کے قدرتی عجائبات دنیا بھر میں مہم جوؤں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جنگلی حیات اور تاریخی یادگاریں سیاحت کے امکانات میں مزید اضافے کا باعث ہیں جبکہ قدیم تہذیبوں کے آثار کو اجاگر کر کے اور ملک کا اسٹرٹیجک محل وقوع بالخصوص مذہبی سیاحت کی تشہیر کر کے سیاحت کے فروغ کی صورت بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ رواں سال (دو ہزار چوبیس) کے اوائل میں سعودی عرب نے کئی ایک اہم سماجی تبدیلیاں کیں‘ جن پر تنقید بھی ہوئی لیکن سعودی حکمرانوں کے لئے ہدف واضح تھا اور انہوں نے یہ ہدف مستقل مزاجی سے
حاصل کر لیا۔ سعودی ولی عہد بن سلمان کی قیادت میں بنیادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ سال دوہزارسترہ کے بعد سے‘ ولی عہد نے ترقی پسند راستہ اختیار کیا ہے‘ جس میں پولیس کے اختیارات محدود کرنا‘ خواتین کے حقوق کا فروغ اور سعودی ویژن 2030ء کے ذریعے معیشت کی مضبوطی شامل ہے۔ ان کی جرأت مندانہ اصلاحات‘ جو ان کے دادا شاہ عبدالعزیز ابن سعود کی یاد دلاتی ہیں‘ نے مسلم دنیا کو ایک نئی شکل دی ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے ایک سعودی خاتون ’رومی القحطانی‘ کو مس یونیورس کے مقابلے میں شرکت کی اجازت دی۔ یہ مثالی تبدیلی پاکستان جیسے ممالک کے برعکس ہے‘ جو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے اور اس کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ تیس سال سے کم عمر ہے۔ پاکستان میں انتہاپسندی سے جڑے کئی ایسے واقعات ہیں جو معاشرے میں پھیلی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کر رہی ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان میں ہونے والے ہر بدنما وقوعے کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے جس سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منفی تاثر پھیلتا ہے اور بڑے پیمانے پر پاکستان سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نت نئی بحثیں جنم لیتی ہیں‘ کسی معاشرے میں برداشت
کے الگ الگ معیارات نہیں ہونے چاہئیں اور جب تک معاشرے میں برداشت نہیں پھیلتی‘ اس وقت تک سیاحوں سمیت بیرون ملک سے سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کریں گے۔ ہزاروں ٹویٹس اور پوسٹس یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ انسانی اقدار کا خیال رکھا جائے اور انسانی جان کی عظمت و حرمت کو اپنے نظریات سے مقدم سمجھا جائے۔ پاکستان میں نوجوانوں کے لئے روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے مواقعوں کی کمی ہے۔ نوجوان منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں اور نوجوانوں کی اکثریت اپنے معاشی مستقبل کو لے کر غیر یقینی کا شکار ہے جبکہ اس انتہا درجے کی پھیلی ہوئی مایوسی میں تخلیقی قوتیں پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ اس مرحلہئ فکر پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ سے تھوڑا سا قرض حاصل کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ جڑی شرائط انتہائی سخت ہوتی ہیں اور انہی شرائط کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جبکہ معیشت مثالی شکل میں نہیں تو سیاحت کے امکانات چاہے کتنے ہی زیادہ ہوں لیکن ان سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکے گا اور نہ ہی پاکستان میں براہئ راست بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہو پائے گی۔ انسانی اقدار اور انسانیت کو مقدم سمجھتے ہوئے عوام جب تک شائستگی اور برداشت کا مظاہرہ نہیں کرے گی اس وقت تک ملک سماجی و معاشی طور پر ترقی بھی نہیں کرے گا اور اس سلسلے میں پاکستان کے قومی فیصلہ سازوں کو سعودی عرب کی مثال پر غور کرنا چاہئے‘ جہاں دور اندیش اصلاحات اور سیاحت کے فروغ سے متعلق پالیسیوں کی کامیابیوں اور تسلسل جاری ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ ابوالحسن امام)