مقبوضہ کشمیر: اصولی مؤقف


کشمیر عام تنازعہ نہیں‘ یہ ایک علاقے‘ اس کے لوگوں اْور ان کی تاریخ و ثقافت اور آزادی سے متعلق تحریک ہے اور اِس کا تعلق بین الاقوامی سیاست کی اخلاقیات سے بھی ہے۔ کشمیر تنازعہ قومی تشخص‘ سیاسی عزائم اور دونوں ممالک بھارت و پاکستان کی تاریخ کے متضاد نظریات کے درمیان تناؤ کو متاثر کر رہا ہے۔ پانچ سال میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے سانحہئ کشمیر کے اسکرپٹ کو دوبارہ لکھ کر مذکورہ حقیقت کو مٹا دیا ہے۔ بھارت جانتا تھا کہ کشمیر کاز کی کامیابی دو عوامل پر منحصر ہے۔ کشمیریوں کی بغاوت اور کشمیر کاز کے لئے پاکستان کی حمایت۔ یہ صرف کشمیری ہی نہیں جو بھارت کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہیں بلکہ پاکستان نے بھی کشمیر پر اصولی مؤقف اپنا رکھا ہے لہٰذا بھارت کی حکمت عملی یہ تھی کہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے اور بدنام کرنے کی مہم چلائی جائے۔ خیال یہ تھا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے تاکہ کشمیریوں کے حوصلے ظلم سے پست کئے جا سکیں کیونکہ ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ کشمیر کے نئے سانحے کا موضوع ہندوتوا ہے۔ طاقت کے عدم توازن اور دونوں ممالک کی عالمی حیثیت کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق نے بھارت کو ماضی کے پاک بھارت تعلقات کی کشش ثقل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے۔بھارت عالمی منڈی ہے جو مغرب کے اقتصادی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جبکہ پاکستان ایک شراکت دار کے طور پر بین الاقوامی برادری کے لئے مفید ہے لیکن انتہا پسند تنظیموں کے مبینہ میزبان کی حیثیت سے صورتحال اِس کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ موجودہ حالات اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر بے بنیاد ’دہشت گردی‘ کا الزام لگایا ہے اور اِسے الگ تھلگ کرنے اور بدنام کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے جو پاکستان کی کشمیر پالیسی پر حملہ کرنے کے لئے بھارت کا ”کوڈ ورڈ“ بن چکا ہے۔ بھارتی پراپیگنڈے میں دہشت گردی کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ اس کا مقصد بھارت کو غیر مستحکم کرنا ہے جس کے استحکام میں چین کو روکنے میں اس کے کردار کی وجہ سے مغرب کا بڑا حصہ ہے۔ اِن دلائل کے ذریعے بھارت کشمیر کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بنانے میں کامیاب رہا ہے جسے مغرب اور یہاں تک کہ خلیج میں پاکستان کے دوستوں نے بھی غیر مشروط طور پر قبول کیا ہے۔ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ‘ جو پہلے ہی گورننس کے مسائل اور افغان جنگ کی ناکامی کی وجہ سے واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے خراب تھی کو اِس سے دھچکا لگا ہے‘  اس یقین کے ساتھ کہ مغرب آنکھیں بند کر لے گا‘ انہوں نے کشمیر کے الحاق کو زیادہ سے زیادہ جبر سے شروع کیا۔مقبوضہ کشمیر میں جبر جاری ہے۔ کشمیریوں کی مزاحمت ختم کرنے کے لئے اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی شہری آزادیوں پر ناقابل برداشت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں غیر قانونی طور پر بھارت میں ضم کرنے پر مجبور کرنے کے لئے خوف کی فضا پیدا کردی گئی ہے۔ حکومت سے اختلاف رائے کے نتائج ملازمت کی معطلی سے لے کر دور دراز کی بھارتی ریاستوں میں قید و بند ہیں۔ صحافیوں کو حراست میں لئے جانے اور میڈیا اداروں پر چھاپے مارے جانے کی وجہ سے میڈیا کوریج ممکن نہیں رہی۔ غیر قانونی قبضے نے کشمیر میں زندگی کے ہر پہلو کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور عہدیداروں کو یوم آزادی اور یوم جمہوریہ جیسے قومی مواقعوں پر بھارتی پرچم کے ساتھ تصاویر پوسٹ کرکے وفاداری کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ان پر اپنی رہائش گاہوں پر جھنڈا لہرانے کے لئے بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ یہ عمل اْن بے شمار طریقوں کی ایک مثال ہے جس میں کشمیریوں کو ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں ایسے اقدامات پر مجبور کیا جاتا ہے جو کشمیری مزاحمت کے جذبے کے منافی اور بھارت نواز جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت بھارت کی ریاستی مشینری اکثر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) جیسے آلات کا استعمال کرتی ہے‘ جو دونوں نوآبادیاتی غداری کے قوانین کا حصہ ہیں۔ طریقہئ واردات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کچلنے کے لئے خوف کا ماحول پیدا کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر توقیر حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی شکایات کے بارے میں بات کرنے سے بھی ہچکچا رہے ہیں‘ انہیں خوف ہے کہ اختلاف رائے سے ملازمت سے معطلی سے لے کر دور دراز کی ہندوستانی ریاستوں میں قید جیسے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ بھارت کو لگتا ہے کہ اسے پاکستان کی مدد کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل مل گیا ہے۔ اِس صورتحال میں پاکستان کے پاس آپشنز موجود ہیں؟ نہ تو جنگوں اور نہ ہی اب تک پاکستان کی طرف سے کشمیری مزاحمت کی حمایت سے اِس تنازعہ کوحل کرنے میں مدد ملی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں مددگار ثابت ہوئی ہیں کیونکہ بڑی طاقتوں کشمیر میں بھارت کے مظالم پر خاموش ہیں اور یہ دہرا معیار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔