بھارتی انتخابات پر نظر

بھارت میں اٹھارہویں ’لوک سبھا‘ انتخابات کا مرحلہ وار عمل شروع ہو چکا ہے اور یہ چار جون تک جاری رہے گا‘ الیکشن کمیشن کے مطابق چھیانوے کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ عام انتخابات سات مرحلوں میں کل چوالیس دنوں پر محیط ہوں گے‘ جو دنیا کے طویل ترین اور سب سے بڑے انتخابات بھی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں دو سیاسی پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں ایک قومی پارٹیاں اور دوسری ریاستی (صوبائی) پارٹیاں۔ کئی ریاستوں میں قومی پارٹیوں کی مقبولیت زیادہ ہے جبکہ ریاستی جماعتیں مخصوص ریاستوں تک محدود ہیں۔ درجہ بندی کے لحاظ سے اِن جماعتوں کو تین بلاکوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا بلاک نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کا حکمراں اتحاد ہے۔ دوسرا بلاک انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) پر مشتمل ہے جبکہ تیسرا بلاک ان جماعتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ابھی تک دونوں اتحادوں میں سے کسی کا حصہ بننے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حکمراں اتحاد (این ڈی اے) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ 543 نشستوں میں سے 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ آنجہانی راجیو گاندھی بھارت کے واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے بھارتی انتخابی تاریخ میں 414 نشستیں حاصل کیں۔ لوک سبھا اور ودھان سبھا انتخابات کے انتخابی رجحانات کافی حد تک مختلف ہیں۔ تمام لوک سبھا حلقوں کے رجحانات اور انتخابی سیاست کو انڈین الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ پندرہویں سے سترہویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج بڑے پیمانے پر بھارتی انتخابی حلقوں کو تین زمروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلی کیٹیگری میں تقریباً ایک سو سیٹیں ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پائے گی۔ یہ حلقے بھارت کے جنوبی اور مغربی حصوں پر غالب ہیں۔ سال دوہزارچار کے بعد سے اِن حلقوں میں ’بی جے پی‘ کا ووٹ بینک پرانا ہی ہے اُور بھارت کے دیگر حلقوں میں حکمراں جماعت کی مقبولیت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ دوسری کیٹیگری دوسو نشستوں پر مشتمل ہے جہاں دو روایتی حریف بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) مدمقابل ہیں۔ بھارت کا وسطی اور شمالی حصہ جسے ہندی بیلٹ بھی کہا جاتا ہے  دوسرے زمرے کے انتخابی حلقوں پر مشتمل ہے۔ سال دوہزارچودہ کے بعد سے کانگریس نے اِن دوسو حلقوں میں شکست کھائی۔ سال دوہزارچودہ ہی میں بی جے پی نے دوسو میں سے ایک سو بارہ نشستیں حاصل کیں۔ یہ اعداد و شمار سال دوہزاراُنیس کے لوک سبھا انتخابات میں مزید بہتر ہوئے جب بی جے پی نے دوسو میں سے ایک سو بیاسی نشستیں حاصل کیں‘ جو انتخابی سیاست میں ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔کانگریس کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے ’این ڈی اے‘ ہے جس نے دوہزاراُنیس کے لوک سبھا انتخابات میں تین سو تین نشستیں حاصل کیں۔ پچھلے دو لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی مسلسل بدترین کارکردگی کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں کرشماتی قیادت کی عدم موجودگی‘ اندرونی اختلافات‘ مودی فیکٹر‘ ہندوتوا اور اقربا پروری و بدعنوانی کے الزامات شامل ہیں۔ ان اجتماعی مسائل نے کانگریس کو گنتی کی لوک سبھا نشستوں تک محدود کردیا ہے۔ اس کے برعکس‘ میڈیا مہمات‘ ہندو قوم پرستی کے فروغ‘ مضبوط اور جارحانہ خارجہ پالیسی‘ مندر کی سیاست اور ترقیاتی تصورات کے ذریعے بی جے پی مقبول ہے اور بالخصوص ’ہندی بیلٹ‘ پر مقبولیت کے لحاظ سے چھائی ہوئی ہے۔ اگر کانگریس درپیش ساکھ کے مسائل پر قابو پالیتی ہے تو قریب ایک سو نشستیں حاصل کر لے گی اور ایسا ہوا تو اس سے بی جے پی کے سیاسی عزائم نمایاں طور پر متاثر ہوں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خرم عباس۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


‘ جس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ تیسرے زمرے میں بی جے پی کے بنیادی حریف بھارت کی ریاستی جماعتیں ہیں جیسا کہ آل انڈیا ترنمول کانگریس (اے آئی ٹی سی)‘ دراوڑ منیتر کاڑگم (ڈی ایم کے)‘ تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) وغیرہ۔ یہ حلقے بنیادی طور پر بھارت کے جنوب‘ جنوب مغرب اور جنوب مشرق میں ہیں۔ بی جے پی کے خلاف کانگریس کے مقابلے میں ان علاقائی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پچھلے دو لوک سبھا انتخابات میں کافی بہتر رہی ہے۔ سال دوہزارچودہ میں بی جے پی نے بانوے نشستیں حاصل کیں جبکہ سال دوہزار اُنیس میں اس نے 243 میں سے 118 نشستیں حاصل کیں۔ اس زمرے میں ’بی جے پی‘ کے لئے کافی جگہ موجود ہے اور 243 میں سے 160 سے 180 نشستوں کے درمیان کسی بھی طرح کی بہتری سے بی جے پی کو لوک سبھا میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور یہ 362 نشستوں کی تعداد عبور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی سیاسی مہم کا محور اِنہی حلقوں پر زیادہ ہے۔ ’بی جے پی‘ نے ان حلقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے دو رخی حکمت عملی اپنائی ہے‘ جس میں مودی‘ امیت شاہ اور راج ناتھ سنگھ سمیت مرکزی قیادت کے مسلسل دورے اور مقامی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم شامل ہیں۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں پہلے دو کٹیگریز کا امتحانی منظرنامہ واضح ہے۔ تیسری قسم کے حلقے سال دوہزارچوبیس کے بھارتی انتخابات کے لئے حقیقی میدان جنگ ثابت ہوں گے‘ جس میں بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس کیٹیگری کے نتائج بتائیں گے کہ بھارت کے عام انتخابات میں بی جے پی حسب توقع دو تہائی اکثریت حاصل کرتی ہے اور وہ بھارتی آئین میں تن تنہا ترمیم کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے انتہا پسندانہ عزائم میں ناکام ہو جاتی ہے۔