قلیل المدتی اصلاحات 

راقم الحروف کا تعلق ایک دیہی زرعی گھرانے سے ہے اور میرے والد اور چچا کے پاس زمین کا ایک مشترکہ ٹکڑا تھا جو ہمارے گاؤں کے بہت سے خاندانوں کے پاس نہیں۔ کسی بھی زمیندار کنبے کی طرح ہمیں ہمیشہ سرمائے کی کمی کا سامنا رہا اور کبھی کبھی یہ کمی اِس قدر بڑھ جاتی کہ فاقوں کی نوبت آ جایا کرتی تھی۔ ہر نئی فصل کے موسم کے موقع پر دعائیں کی جاتیں کہ موسم خراب نہ ہو لیکن وقت کے ساتھ زراعت منافع بخش نہ رہی اور دیگر زرعی خاندانوں کی طرح راقم الحروف نے بھی بہتر روزگار کے لئے گاؤں سے شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ صورت حال کم و بیش پاکستان کے ساتھ زرعی خاندانوں کے ساتھ ایک جیسی ہے۔ چھوٹے کاشتکار ہر نئی حکومت کے ساتھ امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور پھر اگلی اور اگلی اور اگلی حکومت کا انتظار کرتے ہیں لیکن کاشتکاروں کی امیدیں کبھی بھی پوری نہیں ہوئیں۔ پاکستان معاشی لحاظ سے ’مشکل صورتحال‘ سے گزر رہا ہے‘ ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ نئی حکومت سے کاشتکاروں کی توقعات ہیں کہ اُن کے مسائل حل کئے جائیں گے تاہم امید پر خوف غالب ہے۔ ملک کوبڑی میکرو اکنامک پالیسی یعنی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ترقی پسندانہ ٹیکسوں اور فضول اخراجات پر قابو پاکر مالی صورتحال میں بہتری‘ تجارت میں توازن اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری اداروں کے خسارے اور نقصانات پر قابو پانا اور یوٹیلیٹی کمپنیوں کے اخراجات کم کر کے اجناس کے آپریشنز میں پائی جانے والی خامیاں دور کی جا سکتی ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے اور غربت کا یہ پھیلاؤ حکمرانی کرنے والوں کے ضمیر پر بوجھ ہونا چاہئے۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق کی ادائیگی سے انکار کا نتیجہ ہے کہ ہر سال پہلے سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ بے قابو افراط زر اور بالواسطہ ٹیکس نے غریبوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا ہے اور غریب عوام کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ غربت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا واحد عنصر ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور روزگار پیدا کرنے کے لئے معاشی مسابقت پر اثرات بھی غربت میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔چھوٹے کاروبار کے لئے فضا سازگار نہیں رہی اور یہی مناسب وقت ہے کہ میکرو اکنامک اصلاحات کی جائیں اُور غربت پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے قلیل المدتی اقدامات کئے جائیں۔سب سے پہلے سرکاری اداروں میں ’بھتہ خوری کلچر‘ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے بھتہ خوری معمول بن چکا ہے۔ ایک حالیہ مثال بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے اضافی چارجنگ ہے۔ قوانین کے نفاذ کے دائرے میں چھوٹے کاروباریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اگر وہ ادائیگی نہیں کرتے تو اُنہیں ہدف بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بھتہ کلچر ختم کرنے کے لئے مضبوط ادارہ جاتی نظم و نسق‘ شفافیت‘ شہریوں کی شمولیت اور شکایات سے نمٹنے کے بہتر طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ ہمیں انتظامی عمل کو آسان بنانے کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ اضافی ادائیگی کے بغیر ہر درخواست گزار کو بجلی کا میٹر ملنا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو مراعات دی جاتی ہیں لیکن اُن کی کارکردگی عوام دوست نہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ سرکاری اداروں کے ادارہ جاتی میکانزم میں آسانیاں متعارف کرانے کے لئے ’مضبوط عزم‘ کی ضرورت ہے۔ منافع خوری اور پیمائش کے خسارے پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ افراط زر نہ صرف مارکیٹ کے عوامل کی وجہ سے ہے بلکہ قیمتیں کنٹرول کرنے والے نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے بھی ہے۔ کچھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں لیکن تاجروں کی اکثریت ٹیکس ادا نہ کر کے فائدہ اُٹھاتی ہے اور ہمیشہ ٹیکس نیٹ سے باہر بھی رہتی ہیں۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ”ون ونڈو آپریشنز“ یقینی بنائے جائیں۔ وقت ہے کہ قوانین و قواعد پر نظرثانی کی جائے اور اگر یہ قابل عمل نہیں رہے یا اِن سے صارفین (عوام) کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا تو انہیں منسوخ کر دینا چاہئے۔ کوئی جواز منطقی نہیں کہ اگر قوانین و قواعد کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے تو اُنہیں بہرصورت برقرار رکھا جائے۔ اگر عوامی شکایات پر فوری کاروائی کی جائے اور ذمہ دار سرکاری ملازمین اور اداروں کی کارکردگی کا احتساب کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر شعبے میں معیشت بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ توجہ طلب ہے کہ صحت اور تعلیم دو سب سے اہم خدمات کے شعبے ہیں جن میں اصلاحات سے غربت کے خاتمے پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سہولیات اور انسانی وسائل کے خلا کو پر کرنے کے لئے اِن شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر ایک فعال اور متحرک نظام بنایا جائے تو موجودہ افرادی قوت سے زیادہ بہتر استفادہ ممکن ہے اور یہ کوئی ناممکن ہدف نہیں ہے بلکہ تبدیلی اور اصلاح کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کے احتساب سے ملک مضبوط ہو گا۔ سفارش کی حوصلہ شکنی ہو گی اور سرکاری محکموں سے بتدریج سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہوتا چلا جائے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفی تالپور۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)