یادش بخیر سال دوہزارچودہ کے آغاز پر‘ نریندر مودی کو وزیر اعظم بنے ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ بھارت کے کوسٹ گارڈز نے ایک کاروائی کی‘ جس کے بعد اعتراف کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف کی گئی کاروائی غلط بیانی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اس وقت کئی ایک منطقی سوالات اٹھائے کہ کوئی بھی ملک نامعلوم کشتی کو اس میں سوار افراد کی تحقیقات کرنے کی بجائے دھماکے سے کیوں اڑائے گا؟ بعد ازاں کوسٹ گارڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کشتی کو تباہ کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ اس میں سوار چار افراد کو بھارتی جیل میں بریانی کھانے کی خوشی سے محروم رکھا جا سکے۔ جس طرح وزیراعظم مودی اپنے پیروکاروں کو ان کے لباس سے مسلمانوں کی شناخت کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں‘ اسی طرح بریانی کو صرف پکوان نہیں بلکہ مسلم پکوان کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو‘ بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست بریانی کے ساتھ محبت اور نفرت (تعصب) رکھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ’بی جے پی‘ نے ممبئی نارتھ حلقہ کی لوک سبھا سیٹ کیلئے اپنا نامزد امیدوار تبدیل کیا۔ کہا جا رہا تھا کہ یہ اقدام انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹرز کے رجحانات جو کہ پریشان کن ہیں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ نکم نے نومبر دوہزار آٹھ کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے معاملے میں زندہ پکڑے
گئے واحد بندوق بردار اجمل قصاب پر مقدمہ چلانے والی خصوصی عدالت کو اس بات پر رضامند کیا تھا کہ اسے سزائے موت دی جائے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران نکم نے یہ افسانہ نشر کیا کہ پاکستانی ملزم جیل میں مٹن بریانی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ بعد میں انہیں اس ’مٹن بریانی‘ کے دعوے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سال دوہزارپندرہ میں جے پور میں انسداد دہشت گردی پر ایک عالمی کانفرنس کے دوران نکم نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے دہشت گرد مشتبہ کے حق میں پیدا کی جانے والی ’جذباتی لہر کو توڑنے‘ کیلئے عدالت کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔بریانی تقریباً ہمیشہ ایک نان ویجیٹیرین چاول کی ڈش ہوتی ہے جسے لکھنؤ میں پلاؤ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اس کی جغرافیائی اصل اور ذائقہ مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ بھارت کی سیاست میں بریانی کا عمل دخل ہے۔ نریندر مودی جب وزیر اعظم کے امیدوار تھے تب انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور یو پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان پر الزامات عائد کئے گئے کہ وہ پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ ’چکن بریانی‘ بانٹ رہے ہیں جبکہ سرحدوں پر بھارت کے جوان مارے جا رہے ہیں۔ مودی نے کہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی فوجی سرحد پر ہمارے جوانوں کو مارتے ہیں اور دہلی میں حکومت پاکستانی وزیر اعظم کو بریانی کھلانے کیلئے پروٹوکول کا حوالہ دیتی ہے؟“ بریانی کی مقبولیت پر سیاسی کشمکش کے علاوہ مودی کی نگرانی میں بی جے پی سبزی خوری کی طرف مائل ہو رہی ہے‘ جسے وزیر اعظم اپنے گجراتی ساتھی امیت شاہ کے ساتھ ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں بہار کے اپوزیشن رہنما پر مچھلی کھانے کی وجہ سے تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ گوشت کھا کر ایک مقدس مہینے کے دوران ہندوؤں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے انتخابات کے مراحل مکمل ہو رہے ہیں‘ فرقہ وارانہ حملوں میں اضافہ متوقع ہے۔ وزیر اعظم نے حزب اختلاف پر مسلمانوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے حریفوں نے سونا اور یہاں تک کہ جنوبی ہند کی شادی شدہ خواتین کیلئے مقدس منگل سوتر بھی چھیننے کا منصوبہ بنایا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے اس سے متعلق ایک درخواست خارج کی جس میں مذہب کے نام پر آئندہ لوک
سبھا انتخابات کیلئے مبینہ طور پر ووٹ مانگا گیا اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کو نریندر مودی کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دینے کی مانگ بھی کی گئی تھی۔بھارت میں سیاست دانوں کیلئے یہ عام بات ہے کہ وہ جھوٹی کہانیاں پھیلائیں اور محض سیاسی ضرورت کے تحت دوسروں کو بدنام کیا جائے اور ایسا صرف بھارت ہی میں نہیں ہو رہا۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جیسا کہ اسرائیل نے حماس کے خوفناک حملوں سے متعلق جھوٹ بولا۔ ملک اور بیرون ملک رائے عامہ کو متحرک کرنے کیلئے اسرائیل نے اجتماعی عصمت دری اور بچوں کے سر قلم کرنے کے جھوٹے دعوے کئے۔ نئی دہلی کے ایک ٹی وی چینل نے افضل گورو کا نام نہاد اعترافی بیان نشر کیا اور تحقیق نہیں کی کہ جس بیان کو سپریم کورٹ نے سال ’دوہزار ایک‘ کے پارلیمنٹ حملہ کیس میں مسترد کر دیا تھا کیونکہ یہ بیان پولیس کو مشکوک حالت میں دیا گیا اور جسے غیر قانونی طور پر پریس کو دیا گیا تھا۔ مودی دور حکومت میں مبینہ طور پر گائے ذبح کرنے یا گائے کا گوشت ذخیرہ کرنے اور کھانے کے لئے مسلمانوں پر پرتشدد حملے ہوئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ سال دو ہزار تیئس میں گائے کا گوشت برآمد کرنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل تھا! (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جواد نقوی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)