مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی نے انسانیت کے بہتر مستقبل کی اُمید پیدا کی ہے۔ اکیسویں صدی کا یہ انقلاب ہر شعبہ ہائے زندگی کو کسی نہ کسی صورت متاثر کر رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب کے مصنف مصطفی سلیمان نے ”نئی ٹیکنالوجیز اور چیلنجز کے ذریعے انسانی ترقی کے امکانات“ کا جائزہ پیش کیا ہے۔اُن کی کتاب نئی ٹیکنالوجی یعنی ایجادات کا احاطہ کرتے ہوئے اِن کے خطرات پر عالمی بحث سے متعلق ہے۔ ہنری کسنجر‘ ایرک شمٹ اور ڈینیئل ہٹنلوکر‘ کی مشترکہ تحریر کردہ یہ کتاب بعنوان ’دی ایج آف اے آئی: اینڈ آور ہیومن فیوچر“ کے نام سے کتاب سال دوہزاراکیس میں شائع ہوئی اور تب سے مختلف حلقوں میں زیربحث ہے۔ درحقیقت مصنوعی ذہانت کی کامیابیاں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب مصنوعی ذہانت چند برس میں انسانوں سے زیادہ زیراستعمال ہو جائیں گی۔ جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کو بااختیار‘ زندگیوں کو بہتر بنانے‘ پیداواری صلاحیت میں اضافے‘ طبی اور سائنسی علم کو آگے بڑھانے اور معاشروں کو تبدیل کرنے جیسے متعدد مثبت پیش رفتوں کو تقویت دی ہے۔ تکنیکی ترقی نے بے مثال سماجی اور معاشی ترقی کو فروغ دینے میں بھی مدد کی ہے لیکن جدید ٹیکنالوجیز سے نئی کمزوریوں اور نقصان دہ نتائج پیدا ہوئے ہیں‘ جن کو ابھی تک کم یا مؤثر طریقے سے سمجھا اور حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ مصنف مصطفیٰ سلیمان کے مطابق ”ٹیکنالوجی کی لہر نے انسانی تاریخ کو ایک اہم موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور اِس کی آنے والی لہر زیادہ مشکل ہو گی۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں کرنے والے زیادہ سرمایہ کمائیں گے لیکن اِس سے منفی اثرات پھیلیں گے‘ یہاں تک کہ ”ناقابل تصور حد تک تباہی پھیلے گی۔“ مصنفین کا اتفاق ہے کہ مصنوعی ذہانت ”اکیسویں صدی کا عظیم میٹا مسئلہ“ ہے جسے ایک فکر انگیز کتاب میں خطرات کی صورت پیش کیا گیا ہے۔ مصطفیٰ سلیمان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے کردار کو کس طرح ’محدود‘ کیا جائے تاکہ یہ انسانیت کی خدمت کرے اور انسانیت کو نقصان نہ پہنچائے۔ مصطفیٰ سلیمان کے نزدیک انسانی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے ایک سلسلے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ دور کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس میں ایک سے زیادہ عوامل اور ٹیکنالوجیز مل کر کام کر رہی ہیں جس کے گہرے معاشرتی مضمرات ہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کی تاریخ بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح یہ مطلوبہ اور غیر ارادی طور پر پرخطر نتائج کی حامل ہے اور اِس سے روک تھام کے چیلنجز نے جنم لیا ہے۔ وہ ٹیکنالوجی سے درپیش ناگزیر چیلنجز کو بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے نت نئی ایجادات پر کنٹرول نہیں رہا اور ایجادات کے استعمالات بھی کنٹرول میں نہیں۔ یہ ایک غیر متوقع صورتحال ہے جس سے بچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ تاحال انسانیت نے ٹیکنالوجیز سے درپیش خطرات کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں ہے کہ اِس سے ’انتقامی اثرات‘ بھی جنم لے چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ٹیکنالوجی اپنے اصل مقصد کی بجائے غلط سمت میں سفر کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی ہمیشہ مسائل پیدا کرتی ہے اور معاشرے پر اس کے نقصان دہ اثرات روکنے کے لئے روک تھام ایک ضروری بلکہ ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ اس کے باوجود روک تھام کا مسئلہ حل نہیں ہوا لیکن سلیمان کے مطابق یہ ایک استثنیٰ ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی‘ جو ”تاریخ میں سب سے زیادہ موجود ٹیکنالوجیز“ میں سے ایک ہے۔ اس کے پھیلاؤ کو جوہری طاقتوں کی عدم پھیلاؤ کی پالیسی کی وجہ سے روکا گیا ہے جو ان کے تباہ کن اثرات کے بارے میں خدشات کے باعث ہے۔ اس کے علاؤہ جوہری ہتھیار انتہائی پیچیدہ اور تیار کرنے کے لئے مہنگے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ارتقاء کے بارے میں مصنفین کا نکتہئ نظر ہے کہ اِس سے مصنوعی حیاتیات پیدا ہوں گی کیونکہ یہ ٹیکنالوجیز دنیا کے دو بنیادی اصولوں‘ ذہانت اور زندگی سے متعلق ہیں اور اِس سے غیر معمولی طور پر نئے شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ انجینئرنگ کے نت نئے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں اور یہ انسانی ذہانت سے بھی آگے بڑھ رہی ہے جو اپنی جگہ خطرہ ہے۔ مصنوعی ذہانت کے محور کے طور پر کام کرنے والی موجودہ تکنیکی لہر پر اگر موجودہ ابتدائی دور میں قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اِس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا لیکن سلیمان مصطفیٰ لکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو سمجھنا اس کے بہت سے مضمرات کا درست اندازہ لگانے کی سمت پہلا قدم ہوگا‘ خاص طور پر جب بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت آخری حدوں سے بڑھ جائے گی۔ مذکورہ کتاب میں بائیو ٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ میں ہونے والی پیش رفت کی تفصیل بھی دی گئی ہے‘ جس میں غیرمعمولی رفتار سے ترقی ہو رہی ہے اور ”مصنوعی زندگی کے نئے دور“ کا آغاز ہو رہا ہے لیکن دیگر تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجیز‘ جیسا کہ روبوٹکس اور کوانٹم کمپیوٹنگ‘ بھی اِسی نئی لہر کا حصہ ہیں۔ (مضمون نگار برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
سلیمان مصطفیٰ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی آنے والی لہر زیادہ تیز رفتار اور نتیجہ خیز ثابت ہو گی‘ جس کی چار خصوصیات ہوں گی اور یہ ٹیکنالوجیز کثیر استعمال بھی ہوں گی جنہیں ’ہائپر ترقی‘ کے غیر متوازن اثرات کی صورت دیکھا جائے گا اور اِس کے بڑھنے پھیلنے کی رفتار پر کنٹرول بھی رکھا جا سکے گا۔ ٹیکنالوجی کی روک تھام کے لئے دس اقدامات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے تکنیکی تحفظ‘ احتساب‘ سماجی مقاصد اور ٹیکنالوجی کی نگرانی جیسے اقدامات میں حکومت کو فعال کردار تفویض کرنا شامل ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجیز کے خطرے کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر قوانین بنائیں جائیں اور ممالک کے درمیان ہم آہنگی پر مبنی تعاون کی داغ بیل ڈالی جائے۔ کیا اِن مجوزہ اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے لیکن نئی ٹیکنالوجی کے نقصان دہ پہلوؤں کو محدود کرنے کے لئے فوری کاروائی کی ضرورت اور جرات مندانہ مطالبے سے کسی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہوسکتا