پاکستان میں ہر سال 300 ارب روپے کی گندم کی خریدفروخت ہوتی ہے اور اِس سے جڑے مسائل کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ گندم بحران کا حل کسی خفیہ ادارے کے پاس نہیں بلکہ اِس کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ یہ مسئلہ 76 سال سے ہے۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ایز) کے نیٹ ورک کے پاس اِس کا کوئی حل نہیں جس کا ثبوت اب تک بحران کا برقرار رہنا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے)کو قائم ہوئے انتالیس سال ہوئے ہیں اور اِس ادارے کے پاس بھی اِس بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ اِسی طرح پچیس سال سے قائم قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس بھی اِس بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔گندم بحران کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ اگر فیصلہ ساز تحقیقاتی رپورٹ پر انحصار کریں گے تو یہ ایک بیکار کوشش ہوگی۔ گندم بحران کی وجہ کیا تھی اِس سے جڑی سچائی کو بے نقاب کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اگر بحران کا حل تلاش کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ گندم درآمد کرنے والے نیٹ ورکس سے تعلق رکھنے والی ملک کی اشرافیہ نے 300 ارب روپے کمائے اور ملک کو ایک بحران دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سرمایہ داروں کے سر پر زیادہ سے زیادہ امیر ہونے کا جنون سوار ہے۔ دولت کی تقسیم اور دولت مند ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں جس سے ملک کی اکثریتی عوام غریبوں کے وسائل کی لوٹ مار ہو رہی ہے اور محروموں کا استحصال جاری ہے۔گندم بحران کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ ایسے ممالک کی جزوی فہرست پر نظر ڈالیں جنہوں نے گندم کی قیمتوں پر بڑے پیمانے پر حکومتی کنٹرول کو واپس لیا۔ ویت نام‘ چلی‘کولمبیا‘ قازقستان‘ ایتھوپیا‘ مصر‘ انڈونیشیا‘ ایران‘کینیا‘ میکسیکو‘ نائیجیریا‘ پولینڈ‘فلپائن‘ روس‘جنوبی افریقہ‘ تھائی لینڈ اور ترکی۔ گندم بحران کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ ایسے ترقی پذیر ممالک بھی ہیں جنہوں نے گندم بحران سے نمٹنے کے لئے قومی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور جنہوں نے گندم کو خریدنے اور ذخیرہ کرنے کی مرکزی منصوبہ بندی کو ختم کیا۔ اِن میں بنگلہ دیش‘بھارت‘ ایتھوپیا‘ میانمار‘نیپال‘ نائجر‘ نائیجیریا‘پیرو‘روانڈا‘سینیگال‘کمبوڈیا‘گھانا‘ گوئٹے مالا‘ انگولا‘ ہونڈوراس‘ انڈونیشیا‘کینیا‘لاو س ملاوی‘مالی اور موریطانیہ شامل ہیں۔ یہاں تک کہ چین بھی 1990کی دہائی میں ایک مرکزی منصوبہ بند معیشت سے زیادہ مارکیٹ پر مبنی معیشت میں منتقل ہو گیا۔گندم بحران کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ حکومت کی گندم پالیسی سے ایک کھرب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کو گندم کی خریداری اور ذخیرے کے شعبے سے الگ ہونا چاہئے۔ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ (پاسکو)کو تحلیل کر دینا چاہئے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی محکمہ خوراک نے 1309 ارب روپے کے قرضے لے رکھے ہیں۔ حکومت کو پروکیورمنٹ پرائس اور ایشو پرائس طے کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ اِن دونوں کے درمیان 200 ارب روپے مالیت کی بدعنوانی یا بدعنوانی کے امکانات موجود ہیں۔کینٹین سٹورز ڈیپارٹمنٹ (سی ایس ڈی) گندم بحران کا واضح، دیرپا اور آسان حل ہے۔ ایک سو گیارہ سال کی تاریخ کے ساتھ سی ایس ڈی وزارت دفاع کے ذریعہ چلایا جاتا ہے اور یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی ریٹیل چین ہے۔ سی ایس ڈی کے پاس ایک انتہائی کامیاب اوپن ٹینڈر نظام موجود ہے۔)بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام(
گندم بحران کا واضح دیرپا اور آسان حل موجود ہے۔ حکومت کو گندم کی خریداری کے معاملے سے الگ ہو کر ملک میں گندم کی پیداوار اور رسد پر مبنی مارکیٹ کی کارکردگی کی نگرانی کرنی چاہئے۔ اس بحران کا واضح دیرپا اور سادہ حل کے تین نتائج برآمد ہوں گے ایک تو پاکستان میں روٹی کی قیمت مستحکم اور محفوظ ہوگی۔ صارفین کو کم قیمت میں گندم یا آٹا مل سکے گا اور کسانوں کے لئے اپنی پیداوار کی زیادہ قیمتیں ملیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔