خبر یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاہم دونوں طرف سے ہم منصبوں کی ملاقاتوں میں اہم تنازعات سے متعلق بات چیت نہیں ہوئی جن کی وجہ سے شدید اختلافات اور علاقائی کشیدگی ہے جیسا کہ تائیوان‘ یوکرین جنگ‘ تجارت‘ ٹیکنالوجی کا شعبہ اور بالخصوص بحیرہئ جنوبی چین میں امریکی ملٹری کا بڑھتا اثرورسوخ وغیرہ‘ اپریل کے اواخر میں امریکی اسٹیٹ سیکرٹری کا دورہئ بیجنگ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے اور تناؤ کم کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ انٹونی بلنکن نے ایک ایسے وقت میں یہ دورہ کیا کہ جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چند شعبہ جات میں ان کے درمیان تعاون اور تعلقات بہتر بھی ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں سان فرانسسکو میں ایشیائی پیسیفک کارپوریشن فورم (اجلاس) کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے نتیجے میں دوطرفہ تعلقات کچھ حد تک بہتر ہوئے اور ایک سال سے زائد عرصے بعد دونوں ممالک کے مابین مذکورہ پہلی ون آن ون ملاقات کے بعد کچھ حد تک سرد مہری کے بادل چھٹے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں اعلیٰ سطح پر ملٹری رابطے بھی بحال ہوئے جو سال دوہزاربیس میں چین کی جانب سے معطل کر دیئے گئے تھے جبکہ ساتھ ہی انسدادِ منشیات کے تعاون پر معاہدہ بھی ہوا۔ گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے صدور نے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور سفارتی پیش رفت کی ایک جھلک وزرائے دفاع اور امریکی ٹریژری سیکرٹری جینٹ ییلن کے گزشتہ ماہ چین کے دورے کے دوران ہونے والی بات چیت کے دوران دیکھی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان مصنوعی ذہانت پر بات چیت کی پہلی نشست آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے لیکن انٹونی بلنکن کی بیجنگ آمد سے چند گھنٹے قبل امریکی کانگریس نے تائیوان کے لئے اور نام نہاد انڈو پیسیفک خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لئے اربوں ڈالرز امداد کی منظوری دی۔ یہ امداد اکسٹھ ارب ڈالرز کے اُس امدادی پیکیج کا حصہ تھی جس کے تحت یوکرین اور اسرائیل کو امریکی فنڈنگ دی جاتی ہے۔ اس میں ٹک ٹاک کی چینی پیرنٹ کمپنی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے شیئرز فروخت کر دے بصورت دیگر اسے امریکہ میں پابندی کا سامنا کرنا ہوگا۔ صدارتی انتخابات کے سال میں امریکی حکام نے چینی درآمدات پر ٹیرف میں اضافہ کرنے کی دھمکی دی ہے جبکہ جو بائیڈن نے چینی اسٹیل اور ایلومینئم پر ٹیرف میں تین گنا اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جوکہ واضح طور پر ان کی انتخابی مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ حیران کن نہیں کہ انٹونی بلنکن کو اپنے دورے کے آغاز میں بتایا گیا تھا کہ انہیں تصادم اور تعاون میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا۔ چینی وزیرخارجہ وانگ یی نے بات چیت کے دوران کہا کہ اگرچہ ’مختلف شعبہ جات‘ میں تعاون میں اضافہ اور بات چیت ہوئی ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں ’منفی عناصر کا غلبہ ہے۔‘ انہوں نے چینی ریڈ لائنز کو عبور کرنے کے حوالے سے سختی سے خبردار بھی کیا۔ چینی دفتر خارجہ کے مطابق وانگ یی نے ’چین کی معیشت‘ تجارت‘ سائنس و ٹیکنالوجی کو دبانے والے اقدامات‘ پر واشنگٹن کو تنقید کا نشانہ بنایا جن کا مقصد چینی اثرورسوخ کو روکنا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے تسلیم کیا کہ ’چین امریکا تعلقات مستحکم ہونا شروع ہوئے ہیں‘ اور انہوں نے ان شعبہ جات میں پیش رفت پر زور دیا جن میں دونوں ممالک اتفاقِ رائے کرتے ہیں۔ اس مؤقف کی بازگشت انٹونی بلنکن کی جانب سے بھی سنائی دی جنہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ’دونوں ممالک کے مفادات کا تحفظ زیادہ بہتری سے ہو جبکہ انہوں نے امریکی عزم کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ’ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے رابطے برقرار رکھنے‘ انہیں مضبوط بنانے اور کسی بھی غلط اقدام سے بچنے کے لئے ذمہ دارانہ روش کی ضرورت ہے تاکہ اختلافات بتدریج ختم کئے جا سکیں۔ انٹونی بلنکن کے دورے کا اصل مقصد بلاشبہ صدر شی جن پنگ سے ملاقات تھا۔ چینی صدر نے جس انداز میں ان کا استقبال کیا‘ اس نے ظاہر ہوا کہ بیجنگ بھی واشنگٹن کے ساتھ تناؤ کم کرنے کا خواہاں ہے۔ ’جارحانہ مقابلے‘ کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے چینی صدر نے انٹونی بلنکن سے کہا کہ چین اور امریکہ کو حریف کے بجائے ایک دوسرے کا ترقی میں شراکت دار ہونا چاہئے۔ چینی صدر سے ملاقات کے بعد انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ اِس بات کا منتظر ہے کہ چین کے خدشات دور کرے اور کہا کہ اگر بیجنگ نے (امریکہ کی خواہش کے مطابق) ردِعمل کا مظاہرہ نہ کیا تو اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انٹونی بلنکن کی جانب سے حالیہ دورہئ چین اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ممالک تعلقات مستحکم کرنے کی جانب گامزن ہیں اور ساتھ ہی یہ اِس بات کی نشاندہی بھی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ محدود کرنے کی کوشش ہے جو چین اور امریکہ کے تعلقات کے ساتھ مستقل طور پر جڑا ہوا معاملہ ہے۔ (مضمون نگار برطانیہ‘ امریکہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اگرچہ تناؤ کم کرنے کی اس کوشش کے باوجود جوکہ بہرحال ضروری ہے دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی وجہ بننے والے اہم مسائل پر تحفظات کم کرنے کی کوئی خاص کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ تب بھی یہ اشارہ موجود ہے کہ دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ کشیدگی کی وجہ سے دونوں کے درمیان حالات مزید بگڑیں اور تصادم کی صورتحال پیدا ہو جس کے نہ صرف چین اور امریکہ بلکہ پوری دنیا پر غیرمتوقع اثرات مرتب ہوں گے۔